اسلام زندہ ہوتا ہے ہر ”گیارہ“ ماہ کے بعد


ہمارے ہاں یہ سوچ عقیدے کی حد تک پختہ ہو چلی ہے کہ تمام غیر شرعی و غیر اخلاقی افعال سال کے گیارہ مہینوں میں جائز بلکہ ضروری ہیں اور صرف رمضان المبارک میں ممنوع ہو جاتے ہیں۔ گیارہ ماہ ہونے والے کالے دھندے تیس روز کے لئے تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مساجد قدرے آباد ہوجاتی ہیں اور خیرات بھی دیکھا دیکھی چل پڑتی ہے۔ رمضان پہ کمال احسان کرتے ہوئے ناچ گانا اور فحش سرگرمیوں کو اس عزم سے ترک کیا جاتا ہے کہ چاند رات سے ان کا احیائے نو کیا جائے گا اور دوران رمضان روزے کے باعث ہاتھ لگنے والی فرصت میں ان کاموں کی بہتر پلاننگ کا موقع بھی مل جاتا ہے۔

ایسے اشتہار چھپتے ہیں کہ فلاں تھیٹر، فلاں سینما اور فیشن سنٹر احترام رمضان میں بند رہے گا۔ ٹی وی چینلز پر خواتین مفتیان شرعی و اخلاقی امور پر اپنے پردے سمیت، علمی پردے اٹھا کر خوب روشنی ڈالتی ہیں۔ البتہ ایک مثبت بات ضرور ہے کہ اس مہینے ٹی وی پہ آنے والی خواتین کوکچھ ستر کا دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ پورا سال گناہوں اور بد اخلاقیوں کی تشہیر و ترغیب کا مرکز رہنے والے چینلز اچانک اپنے اپنے رنگ میں مذہبی لبادہ اوڑھ کر اپنی ریٹنگ بڑھانے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔

آفریں ہے ہمارے معاشرے پہ کہ ان پاکھنڈ بازیوں کو باعث ثواب جان کر پذیرائی بخشتا ہے۔ کھانوں کی تراکیب کا سونامی غریب طبقات کی دل آزاری کا موجب بنتا ہے۔ ولیموں کی طرز پر افطار پارٹیاں snobbery بن چکی ہیں جن میں مستحقین ناپید جب کہ متمول حضرات کی بھر مار ہوتی ہے۔ اکثر روزہ داروں اور روزہ خوروں کو اس مہینے بسیار خوری اور شکم پروری کی خوئے بد بھی پڑ جاتی ہے اور بجائے صبر و رضا، نا شکری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اربوں کے خرچ سے رمضان بازار شو بھی چلتے ہیں۔ کہتے ہیں رمضان میں بنی ہر چیز شوق سے کھانی چاہیے۔ شاید اسی لئے پاکستان بھی رمضان میں بنا تھا۔ یہ بھی سنا ہے کہ شیطان اس ماہ قید کر دیا جاتا ہے مگر ہم سادہ مسلمان یہ بھول جاتے ہیں کہ شیطان آخر شیطان ہے اور وہ قید ہونے سے قبل ہی اپنے بے شمار قائم مقام اور سہولت کار مقرر کر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بقول اقبال، مسلمانوں کو دیکھ کر یہود و ہنود بھی شرما جائیں۔

دیکھا جائے تو ماہ مبارک حقوق العباد، حقو ق اللہ، اخلاقیات، دیانت داری اور خاص کر صبر و برداشت کا ریفریشر کورس ہے۔ افسوس کہ ہم اسے حق تلفی، بد اخلاقی، عدم برداشت، منافع خوری، ریا کاری، بے صبری اور نا شکری کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ غیر مسلموں کے لئے اس ماہ مفت کے مسائل کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ ہماری منافع خوری اور مہنگائی کے اثرات انہیں بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔ کچھ احباب ان پر بھی رمضان آرڈینینس کا اطلاق چاہتے ہیں اور اسلام جیسے دین کو جبر کا دین ثابت کرنے میں لگے ہیں۔

مہنگائی اور تعصب کا شکار غیر مسلم طبقات رمضان کے جلد گزرنے کا انتظار کرتے ہیں تا کہ حالات معمول پر آ سکیں۔ ہمارے کچھ علما اور عقیدت مند محض رمضان کی برکتوں سے حوروں کے حصول کے شائق نظر آتے ہیں، اسی لئے ابراہیم ذوق ان کی جنت پرستی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا گیا۔ کبھی رمضان میں سادگی، صبر اور تزکیۂ نفس دیکھے جاتے تھے پر آج رمضان کو بھی وی آئی پی کلچر نے گھیر لیا ہے۔ آج کا روزہ حلق اور پیٹ کی یک جہتی اور خراٹوں سے لیس ہوتا ہے۔

چند مرد و زن کا تمام دن افطاری میں کھانے کی چیزوں کے انتخاب میں بطریق احسن بیت جاتا ہے۔ بڑی مساجد اور درگاہوں پہ خصوصی سفارشوں سے اعتکاف کی جگہ لی جاتی ہے۔ ٹریول ایجنٹ کی تو چاندی ہو جاتی ہے۔ عمرہ ثواب کے علاوہ بے شمار سیلفیوں کی تشہیر کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ روزے کا مقصد عظیم تو صبر اور برداشت ہے جب کہ آج ہم رمضان میں جنت کی سی سہولتوں کے طلب گار ہیں اوراپنے سوا سب کو مسائل کا باعث سمجھتے ہیں۔ بجلی آج روزہ کے ساتھ لازم ملزوم ہے۔

بہت سے لوگ واپڈا اور حکومت کو سارا دن گالیاں نکال کر اپنے روزے اور صبر کو مشکوک و معیوب بنا دیتے ہیں۔ شاید اس آزمائش کے ایام ہی کو ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ بر سبیل تذکرہ شریران سوشل میڈیا واپڈا کی وکالت میں لکھتے ہیں ”اے ایمان والو، تم سے پہلی امتوں پر بھی روزے فرض تھے اور وہ لوگ بجلی کے بغیر ہی سحری و افطاری کرتے تھے، یاد رکھو یہ واپڈا ہی ہے جو تمہیں حشر کی گرمی اور قبر کی تاریکی یاد دلاتا ہے ورنہ تم تو یک سر غافل ہو چکے تھے“۔

اک اور فتوی بھی گردش میں ہے کہ حالت روزہ میں گالیاں (خاص کر واپڈا کو) دینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس بار تو نئے پاکستان کا پہلا رمضان ہے جسے نہایت صبر، ہمت اور شکر کے ساتھ منانے کے سوا کچھ چارہ نہیں۔ کیونکہ نئے پاکستان میں صبر و انتظار کی تلقینوں کے انبار ہیں جب کہ مہنگائی کی سونامی کی وارننگ بھی ببانگِ دہل دی جا رہی ہے۔ لہٰذا اس بار روزوں کا اجر پہلے سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ کچھ طبقات کے یہاں تو اسلام صرف رمضان المبارک ہی میں دیکھنے کو ملتا ہے اورعقیدت، پرہیز گاری، مذہبی شعار اور نماز کا شوق و ذوق جاگ اٹھتا ہے جوعید الفطر تک جاری رہتا ہے۔ جوں جوں چاند گھٹتا جاتا ہے مذکور جوش بھی معدوم ہو جاتا ہے اور مآل کچھ افراد مع شیطان گیارہ ماہ کی ضمانت پر رہا کر دیے جاتے ہیں اور ماہ مبارک میں جملہ معطل سر گرمیاں دوبارہ ظہور پذیر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا زیادہ غلط نہ ہو گا کہ:

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر گیارہ ماہ کے بعد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).