نواز شریف ہمیں تم پر فخر ہے!


ابہام ایقان میں، تذبذب تیقن میں، گمان یقین میں، شک اعتماد میں اور الجھاؤ سلجھاؤ میں بدلتا ہوا بڑا واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ سیاسی میدان میں صف بندی ہو رہی ہے۔ ایک طرف جمہوریت کی سپہ کی قطار بندی ہو رہی ہے جس کی قیادت نواز شریف کے آہنی ہاتھوں میں ہے۔ دوسری جانب آمریت کے چاپلوسی و خوشامدی دستے بے ہنگم ہجوم بنا کر بے ترتیب کھڑے ہیں۔ اس مفاداتی ٹولے کی سربراہی مطلق العنان اور ابن الوقت آمروں کی چوکھٹ پر سجدہ ریزی کرنے والی کٹھ پتلیوں کو سونپی گئی ہے۔

جہموریت کے مختصر اورنوخیز کا رواں پر شب خون مارنے والوں کی باچھیں آج بھی کھلی ہیں۔ ان کے چہروں پر مکارانہ اور طنز سے بھرپور مسکراہٹ پھیلی ہے۔ ایک دوسرے کو کہنیاں مار کر سالارِ جمہوریت کی طرف نیچ اشارے کر رہے ہیں۔ آج ایک بار پھر بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم کی پاداش میں وہ پیچیدہ امراض میں مبتلا ایک عمر رسیدہ سیاستدان کو پسِ دیوارِ زنداں ڈال کر بغلیں بجا رہے ہیں۔ ان کے اشاروں پر انصاف کے نام پر مکروہ کھیل کھیلنے والے ایوانِ عدل میں بیٹھی کٹھ پتلیاں دو روز قبل ہی پاکستان کے تین بار منتخب ہونے والے وزیراعظم کی بیماری پر دل کھول کر بھری عدالت میں پھبتیاں کس چکی ہیں۔ پھکڑ کھیل چکی ہیں۔ طنز کے نشتر چلا چکی ہیں۔ حالانکہ تین برس پہلے ہی یہ لوگ ایک آمرِ مطلق کو بیماری کے نام پر پورے تزک و احتشام اور آن بان سے بیرونِ ملک بھیج چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آئے دن اسے واپس ملک میں لانے کے عدالتی ناٹک بھی رچاتے ہیں۔ ڈرامے بھی کرتے ہیں۔ نہ جانے جمہوریت کا خون چوسنے والے ان خوں خوار بھیڑیوں کی پیاس کب بجھے گی؟ ان کی مست انا کی تسکین کب ہو گی؟

قیام پاکستان کے وقت ہی سے یہ جہموریت کے علمبرداروں کی بلی چڑھانا شروع ہو گئے تھے۔ بانی پاکستان کو ایک سنسان و ویران سڑ ک پر ٹھکانے لگا کر بھی ان کی پیاس نہ بجھی تو قائد ملت کو جلسہ گاہ میں سرِ عام گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اس ملک کی تاریخ سیاستدانوں کے لیے نہایت خوں ریز اور آمروں کے لیے انتہائی خوش رنگ ہے۔ قائد عوام کی قربانی کے وقت ہمارا شعور بچپن کی سرحد بھی عبور نہ کرسکا تھا۔ یادوں کے آئینے پر پڑی ماہ و سال کی دھول مٹی کو بہت کوشش سے کچھ صاف کرنے کی کوشش کریں تو ایک دھندلا سا منظر بھولے بسرے خواب کی طرح یادداشت کے کینوس پر کلبلانے لگتا ہے۔

والدِ محترم قائد عوام ہی کی کاوشوں سے سعودی عرب میں محنت مزدوری کی غرض سے نسل در نسل جمی افلاس کی تہوں کو اپنے دست و بازو سے پاٹنے میں مصروف تھے۔ ہمیں بس اتنا یاد ہے کہ بھٹو کی پھانسی کا سن کر والدہ محترمہ محلے کی دیگر عورتوں کے ساتھ مل کر گریہ و ماتم کر رہی تھیں اور اس رات ہمارے ہاں چولہا نہیں جلا تھا۔ بھٹو کی پھانسی کا دکھ کھایا اور آنسو پیے تھے۔

اور جب دخترِ مشرق کا مقتل سجایا گیاتھا تو والدہ اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں اور ہماری اہلیہ دہاڑیں مار مار کر روئی تھیں۔ کیسی پیاری راج دلاری، سیاسی و عصری شعور سے مالا مال، جلال و جمال کا پیکر، حسن کردار و حسن بشری کا شاہکار، شعلہ بیان مقرر، پر عزم و باحوصلہ خاتون، آنکھوں میں غریبوں کے لیے سجائے سپنوں سمیت خون میں نہلا دی گئیں۔ شہیدِ جمہوریت کے قتل کے مجرم کو ملک سے یوں نکال دیا گیا جیسے مکھن میں سے بال۔

آج نواز شریف کو قانون پسند شہری کی طرح نہایت سعادت مندی سے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں کوٹ لکھپت جیل جاتے دیکھ کر یہ سوال ایک بار پھر ذہن میں سر اٹھانے لگا کہ اس ملک کے سیاستدان اس قدر سیاہ بخت کیوں ہیں؟ آپ خود تو ملک توڑ کر بھی بعد از مرگ قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن ہونے کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور دشمن کے عقوبت خانوں سے ایک لاکھ ”سرفروشوں“ کو باعزت واپس لانے والے کو بے جرم و خطا دار پر کیوں لٹکا دیا جاتا ہے؟

کیا ملک کو ترقی اور خوش حالی کے شاندار سفر پر گامزن کرنے والے نواز شریف کو بھی اسی بھیانک انجام سے دوچار کرنے کا منصوبہ بنایا جا چکا ہے؟ کیا سادہ لوح اہل وطن کو اب بھی یقین نہیں آیا کہ سیاسی میدان میں دو صفیں بن چکی ہیں؟ اے ہم وطنو! اٹھو اور نواز شریف کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جاؤ کیونکہ وہ جھکا نہیں، وہ بکا نہیں، وہ ٹوٹا نہیں، وہ بکھرا نہیں، وہ ڈرا نہیں، وہ سہما نہیں، وہ دبکا نہیں، وہ بھاگا نہیں۔ مجھے نواز شریف پر بجا طور پر فخر ہے کیونکہ وہ سیاستدان ہے۔ وہ جمہوریت کے ماتھے کا جھومر ہے۔ وہ قائدِ اعظم، قائدِ ملت، مادر ملت، قائدِ عوام اور دختر مشرق کی سیاسی میراث کا وقار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).