پاکستان، امن کا پیغام؟


ایک طرف تو ہم امن کا پیغام دنیا میں پھیلا رہے ہیں اور دوسری طرف آپس میں اقتدار کے لئے لڑ رہے ہیں۔ دوسری دنیا کو امن کا پیغام اور درس دینے والی قوم یہ بھول گئی کہ ہم اپنے ملک میں کیا کر رہے ہیں۔ سیاستدان آپس میں چور چور کی گیم کھیل رہے ہیں اور قوم ایک دوسرے کے خون کی پیاسی بن گئی ہے۔ حکمران آپس میں الزام تراشی، دھوکہ دہی، تو چور میں پارسا، میں شریف تو ڈاکو کی گیم کھیل کر عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔

اور عوام آپس میں لڑ لڑ کر خون کے اتنے پیاسے ہو گئے ہیں کہ جب تک یہ کسی کا خون نہ کر لے تب تک چین نہیں آتا۔ آئے روز ٹی وی کی ہیڈ لائنز اور اخباروں کی سرخیاں کسی نہ کسی کے خون سے سرخ ہوئی ہوتی ہیں۔ کبھی زیادتی کے نام پر قتل تو کبھی غیرت کے نام پر، کبھی جائیداد کے نام پر قتل تو کبھی لڑائی جھگڑے کے نام پر۔ آئے روز ایسے واقعات معاشرے میں کیا درس دے رہے ہیں۔ ؟ اور ہم دنیا کو امن کا درس دیتے ہیں۔ دوسروں کو خبر یں سنانے والے اب انسان کی عزت بھی بھول گئے۔ گزشتہ دنوں نجی ٹی وی چینل پر پروگرام میں ناصر خان جان کی تذلیل کیا یہی درس ہے امن کا، محبت کا، چاہت کا۔

ہم صرف بولنے میں، بیان دینے میں ماہر ہیں لیکن عملاً کچھ بھی نہیں۔ ایک مشہور محاورہ ہے کہ ”ہا تھی کے دانت کھانے کے اور ہیں دکھانے کے اور“ تو ہمارے معاشرے میں بھی کچھ یہی حساب ہے کہیں گے کچھ اور کریں گے کچھ۔ ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ نہیں بلکہ کیے طرح کے طبقے رہتے ہیں۔ ہر طبقہ اپنے آپ کو امن کا داعی سمجھتا ہے۔ لیکن سب طبقوں کی آپس میں نہیں بنتی۔ اگر سارے ہی امن کے داعی ہیں تو پھر اختلاف کس چیز کا؟

دشمنی کس چیز کی؟  حسد کس چیز کا؟ ، بغض کس چیز کا؟ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں 75 سال سے کشمیر آزاد کرانے کا نعرہ لگاتی آ رہی ہیں تو آج تک کشمیر آزاد نہیں کروا سکیں۔ ووٹ بٹورنے کے لئے بھارت کو امن کا پیغام دیتے ہیں اور کشمیریوں کو کشمیر آزاد کروانے کا لولی پوپ دے کر خوش کر دیتے ہیں لیکن آج تک کسی جماعت نے اقتدار میں آ کر کشمیر کے لئے کام نہیں کیا۔ وجہ کیا؟ وجہ یہی ہے کہ الیکشن سے پہلے مقاصد کچھ اور، اور الیکشن کے بعد مقاصد تبدیل ہو جاتے ہیں اور پھر چور چور کی گیم شروع ہو جاتی ہے جو اگلے پانچ سال تک چلتی ہے۔

ٹی وی پر بیٹھ کر بیان دینے سے کوئی بہادر نہیں ہو جاتا یا امن کا داعی نہیں بن جاتا۔ پہلے ہمیں امن کا درس لینے کی ضرورت ہے اور پھر دوسروں کے داعی بننے کی۔ ابھی نندن کو چھوڑ کر جراءت و بہادری کا درس ضرور دیا، انڈیا سے جنگ نہ کر کے اخلاقیات اور امن کا درس ضرور دیا لیکن دوسری طرف آپس میں بیان بازی، سیاسی انتقام، سیاسی نفرت، جھوٹی گواہیاں، جھوٹے مقدمات، خاندانی سیاست، ایک دوسرے کو گالم گلوچ، الزام تراشی کیا یہ سب کچھ امن کا درس ہے۔

 تمام سیاسی پارٹیوں کے ایجنڈے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سب عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ جیسے روٹی، کپڑا، مکان، بے روزگاری کا خاتمہ، مہنگائی کا خاتمہ، تعلیم فری، علاج فری، لوٹا ہوا پیسا واپس لانا، سڑکیں بنانا، سہولیات کی فراہمی وغیرہ وغیرہ یہ تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے ایجنڈے میں شامل ہے تو پھر لڑائی کس بات کی۔ سارے مل کر یکجا ہو کر کیوں نہیں پاکستان کی خدمت کرتے۔ ؟ کیونکہ ظاہری ایجنڈا سب کا یہ ہے اور باطنی ایجنڈا سب کا لوٹ مار کا ہے جو آج تک سارے لوٹ مار کرتے رہے ہیں۔

موجودہ سیاست کے رنگ دیکھ کر اکثر سوچتا ہوں کہ زندگی کے باقی شعبوں کی مانند ہماری سیاست کا معیار اور اخلاقیات بھی مسلسل تنزل کا شکار ہو رہا ہے۔ پہلے جس طرح کی سیاست تھی اُس میں تہذیب، اخلاق، باہمی احترام وغیرہ کا رنگ غالب تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، سیاست کا اخلاقی معیار گرتا چلا گیا۔ وہ سیاستدان ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے جو عوام کی تربیت کرتے اور اُنہیں تہذیب کے دائروں کے اندر رکھتے تھے۔ اُن کی جگہ ایسے سیاستدان ابھرتے اور اقتدار پر غلبہ پاتے دیکھے جو عوام میں پزیرائی اور مقبولیت حاصل کرنے کے لئے جوکروں کی مانند سیاسی اسٹیجوں پر اداکاری کرتے، مخالفین پر گھٹیا فقرے کستے، ذومعنی خطابات دے کر عوام سے واہ واہ کی توقع کرتے ہیں۔

موجودہ دور میں نوجوانوں کا سیاست میں آنا خوش آئیند بات ہے لیکن اگر ان کی تربیت نہیں تو پھر سٹیج پر کھڑے ہو کر اونچی آواز میں للکارنا تو خواجہ سرا کو بھی آتا ہے۔ نوجوان لیڈر اپنے نوجوانوں کی قیادت کریں نہ کہ ان کو گمراہ کریں۔ موجودہ صورتحال یہی بتا رہی ہے کہ ہمارے نوجوان آئے روز گمراہی کے کنویں میں دھکیلے جا رہے ہیں۔ کنویں میں دھکیلنے والے مورثی سیاست کرنے والے ہیں نہ کہ نئی نسل کی قیادت۔ اگر ایسی ہی مورثی سیاست کو پروان چڑھاتے رہے تو پھر ہم آزاد ملک حاصل کر کے بھی غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہم غلامی کی زندگی ہی بسر کر رہے ہیں۔ تو پھر پاکستان بنانے کی اتنی قربانیاں کیوں دی۔ اگر سب کچھ ہی وہی کلچر، وہی ظلم و زیادتی، وہی عزتوں کی پامالی، وہی غلامی، وہی ظلم و ستم، وہی آپس میں فساد، نفرت، حسد تو پھر الگ ملک لینے کی کیا ضرورت تھی ۔ اگر عورت کی عزت اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی محفوظ نہیں تو پھر یہ ملک لینے کا مقصد پورا نہیں ہو سکا۔

آخر میں ایک سوال ہے سب کے لئے کہ کیا پاکستان امن کا پیغام دے رہا ہے؟

اے کاش! اُنہیں کوئی سمجھائے کہ جو کوئی دوسروں کی تضحیک کرتا ہے، دراصل وہ اپنی تضحیک کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).