گلیمر والے دھماکے اور بورنگ دھماکے


کیا آپ نے کبھی سنا کہ آج ہونے والا دھماکہ بہت اچھا تھا، بہت زیادہ دلوں کے حساسیت کے تار چھیڑ گیا، فلاں شہر میں ہونے والا دھماکہ بہت دل خوش کن تھا، فلاں ملک میں جو قتلِ عام ہوا، تو ہر شخص نے اسے سانحے کا رنج محسوس کیا؟ اور کبھی آپ نے سناں کہ فلاں دھماکہ تو بالکل بورنگ تھا، نہ خبروں میں جگہ بنا پایا نہ اہلِ شہر کی مجالس میں موضوعِ سخن ہوا؟ مجھے یقین ہے کہ آپ نے ایسا کبھی نہیں سنا ہو گا۔ لیکن یقین مانئے کہ ایسا ہوتا ہے۔

بس ہم میں بحیثیت معاشرہ اس اجتماعی اعترافِ جرم کی سکت نہیں، وگرنہ عملی طور پر ہم یہی سب کچھ کرتے ہیں۔ کبھی کبھی سمجھ نہیں آتا کہ کیسے ایک سانحہ دوسرے سانحے کے مقابلے میں زیادہ اثر انگیز ہو جاتا ہے، کیسے ویسا ہی ایک اور سانحہ ہماری اجتماعی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ ذہن پر بہت زور دینے کے بعد ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ کچھ سانحوں میں گلیمر ہوتا ہے، بکنے والا مصالحہ ہوتا ہے۔ اور کچھ لاوارث سانحے اس گلیمر سے عاری ہوتے ہیں۔

یہ ساری بحث آج ایک بار پھر دماغ میں آ سمائی اور دل چاہا کہ اس اچنبھے میں آپ کو بھی شریک کیا جائے۔ لاہور میں داتا دربار کے باہر ایک خودکش حملہ ہوا۔ خودکش حملہ آور نے دربار کے احاطے کے باہر ایلیٹ فورس کی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ دھماکے میں آخری اطلاعات تک پولیس اہلکاروں سمیت دس افراد شہید ہوئے اور تیس کے قریب راہگیر زخمی ہوئے۔ کیا آپ کو سوشل میڈیا کے سرسرے جائزے میں پتہ چلا کہ کوئی اتنا بڑا سانحہ ہوا ہے؟ کیا لاہور شہر میں رہنے والوں کو زندگی رکی ہوئی محسوس ہوئی؟

خاکسار کو دھماکے کے چند گھنٹے بعد جائے وقوعہ سے قریب ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک جگہ جانے کا اتفاق ہوا۔ یقین مانئے کہ زندگی اپنی معمول کی رفتار سے رواں دواں تھی۔ کوئی ایسا عنصر نہیں تھا جس سے پتہ چلتا کہ یہی چند سو میٹر کے فاصلے پر دس گھرانوں کے بچے یتیم ہو گئے۔ دس مائیں اور دس باپ اپنے بڑھاپے کے سہارے سے محروم ہو گئے۔ دس جوان خواتین بھری جوانی میں سہاگ اجڑ گئے۔ ان دس جوانوں کے اوسطاً دو دو تین تین بچے ہوں گے۔

ان پچیس تیس بچوں کی کفالت کا سہارا، ان کے مستقبل کے نقشہ کھینچنے والا معمار چھن گیا۔ ایسے کئی خیالات ذہن میں آئے، لیکن اس تپتی دوپہر میں مال روڈ کے آخر میں پوسٹ ماسٹر جنرل والے اشارے تک اور کچہری آفس تک، ٹریفک اپنے معمول پر تھی، جلدی میں بھاگتے ہوئے لوگ، گرمی سے جھلسائے ہوئے چہرے، اشاروں پر رمضان کے مہینے میں روزہ داروں کے ایمان جانچتے ہوئے فقیر، کچہری کے باہر خوار ہوتے سائلین، آدھی سڑک کو پارکنگ اسٹینڈ بنا کر لاکھوں کمانے والا ٹھیکیدار اور اس کے مظلوم اور محنتی کارندے، جو ایک ناجائز کام بھی بچوں کی روٹی کمانے کے لئے پوری جانفشانی اور قوتِ ایمانی سے کرتے ہیں، سب کچھ اپنے معمول پر تھا۔

دفتر واپس پہنچ کر لیپ ٹاپ چلایا، تو گمان تھا کہ فیس بک اور ٹویٹر اس سانحے کی خبروں اور لوگوں کے دل چیر کر رکھ دینے والے تبصروں سے بھرے پڑے ہوں گے۔ ہر شخص نے اپنی ڈی پی پر داتا دربار کی تصویر لگا لی ہو گی، کچھ سرپھروں نے رُلا دینے والی کچھ نظمیں بھی کہی ہوں گی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ ابھی چند ماہ ہی ہوئے کہ نیوزی لینڈ میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد پورے ملک میں ماتم کا عالم تھا۔ ہر شخص سانحے کی تصویریں اور ویڈیو شئیر کر رہا تھا۔ ہر گھر میں یہی ڈسکس ہو رہا تھا۔ ٹی وی چینلز خصوصی پروگرام کر رہے تھے۔ جیسنڈا آرڈرن کی مثالیں دے کر کپتان کو شرم دلانے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ لیکن وہی دہشتگردی جب اپنے ملک میں اپنے ایک اہم شہر میں سرِعام ہوئی تو سارے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ روزہ رکھ کر سوئے ہوئے تھے۔

ایسے ہر سانحے کے بعد یہی الجھن دوبارہ شروع ہو جاتی ہے کہ کیسے ایک سانحے میں گلیمر زیادہ ہوتا ہے، دوسرے میں کم۔ قریب پندرہ سال پہلے تک پاکستانیوں کی اکثریت خودکش حملوں سے ناواقف تھی۔ بہت بھی ہوا تو بس اتنا جانتے تھے کہ فلسطین میں بہادر حریت پسند اپنے آپ کو بارود سے بھر کر اسرائیلی فوجیوں سے ٹکرا دیتے ہیں۔ ایسے جوانوں کو غیرتِ ایمانی اور جرات و بہادری کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ افغانستان میں خود کش حملوں کی خبریں آنے لگیں، باجوڑ، مستونگ، وزیرستان اور ایسی جگہوں پر بھی خودکش حملے ہوتے رہے اور ہم ایسی خبروں سے اپنے ایمان تازہ کرنے کا کام لیتے رہے۔

جب بات اپنے بڑے شہروں تک آ پہنچی اور ایسے گلی کوچوں میں دھماکے ہونے لگے جہاں ہم روزمرہ میں جاتے ہیں تو ماتھا ٹھنکا۔ خیر کچھ سال ایسی ہر دہشت گردی پر قوم کا ضمیر جاگتا رہا، اگرچہ ایک مخصوص طبقہ اس وقت بھی دہشت گردی کی ہزار تاویلیں پیش کرتا رہا۔ بہرطور پھر یہ معمول کی خبریں بن گئیں، چینلز کو بھی ریٹنگز کا دھندہ چلانا ہوتا ہے تو ایسی خبریں زیادہ نمایاں جگہ لینے میں ناکام ہونے لگیں۔

پھر بھی کچھ خبریں ایسی ہوتی تھیں کہ ایک دم قوم جاگ جاتی اور سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا۔ فرانس میں دہشت گردی ہوئی تو آدھی قوم نے اپنی ڈی پی پر فرانس کا جھنڈا لگا لیا۔ نیوزی لینڈ میں دہشت گردی ہوئی تو بلامبالغہ ہر شخص اس پر بات کرتا ہوا نظر آیا۔ جب اپنے ملک اور اپنے شہر میں دہشت گردی ہوئی تو قوم ستو پی کر سو رہی تھی۔ یہ تو پھر لاہور تھا، گزشتہ ماہ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی دہشت گردی کا نشانہ بنی تو بھی یہی طرزِ عمل دیکھنے میں آیا، جبھی خاکسار نے ”کرائسٹ چرچ اور کوئٹہ کے جمعے میں فرق“ کے عنوان سے کالم لکھا۔

اس وقت بھی ایک مخصوص مذہبی طبقے کے علاوہ باقی پورے ملک میں قابلِ ذکر ردِعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ تصور کیجئے کہ یہی دھماکہ خدانخواستہ ڈیفنس کے کسی ریستوران کے باہر پیش آتا، یا کسی بازار میں تو کیا تب ہمارا یہی ردِ عمل ہوتا؟ ہر گز نہیں، وردی میں ملبوس اہکاروں کا شہید ہونا اب روٹین کی بات ہے۔ اس پر کوئی بڑی خبر نہیں بنتی، شہید ہونے والے بیچارے بھی عموماً چھوٹے شہروں کے رہنے والے ہوتے ہیں، ان کے لواحقین میں بھی کوئی خاص گلیمر نہیں ہوتا کہ میڈیا اپنا وقت ضائع کرے۔

بات کڑوی ضرور ہے لیکن ابھی بھی یقین نہ ہو تو وہ تصویر دیکھ لیجیے، ابھی چند روز پہلے شائع ہوئی۔ کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشت گردی کو ناکام بنانے میں ایس پی سہائے عزیز تالپور نے شجاعت کے کارنامے دکھائے۔ خاکسار نے بھی خاتون اہلکار کی تعریف کی، اسی سانحے میں تین نچلے درجے کے پولیس اہکار شہید ہوئے۔ گزشتہ دنوں شہدا کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ انہی تین شہدا میں سے ایک شہید کانسٹیبل کی والدہ کو زمین پر بٹھا کر کھانا کھلایا گیا۔ اس بزرگ خاتون کی تصویر دیکھئے اور سوچئے کہ کیا یہ گلیمر کا فرق نہیں؟

اور دہشت گردی کے واقعے پر ہی کیا موقوف۔ جب تک کسی سانحے میں نیا پن ہے، وہ میڈیا میں جگہ بنائے گا، جب روٹین بن جائے تو میڈیا بھی ایسے موضوعات سے کوسوں دور رہتا ہے۔ اور ہمارے ہاں جو چیز میڈیا کی زینت نہیں بنتی، وہ چند گھنٹوں میں محو ہو جاتی ہے۔ یہی حال سوشل میڈیا کا ہے۔ نیوزی لینڈ والی فائرنگ ایک نئی طرز کی تھی، سو کئی دنوں تک میڈیا پر چھائی رہی، خودکش حملے، بم دھماکے وہ بھی اپنے دیس میں، مرنے والے بھی صرف وردی پوش اہلکار، ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے نہ تو ہمارے ضمیر جاگتے ہیں، نہ ہی ہمارا سوشل میڈیا ان کے رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ ہاں کوئی مزے کا دھماکہ ہو، کوئی ایڈونچر ہو، کوئی گلیمر ہو، پھر دیکھیں کتنی حساس قوم ہے۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).