شیطان کے بغیر


رمضان کی آمد سے پہلے شیطان کے قید ہونے کا بڑا شہرہ رہتا ہے۔ خاص طور سے سوشل میڈیا پر کچھ ایسا ماحول بن جاتا ہے گویا شیطانوں کا جلوس خود اپنی ہی قید پر ڈھول ڈھماکے کے ساتھ جیل کی طرف غل غپاڑہ کرتا رواں دواں ہے۔ اللہ کی قید ہے تو شیطان کا غل غپاڑہ اس کی دہائی انسانی زبانوں سے کارگر نہیں ہوتی اسے قید ہو کر رہتی ہے۔ اور یوں ایک مہینے انسان کو اس سے رہائی مل جاتی ہے۔

ہم اسے ماہ رمضان کی برکات میں سے ایک سمجھ سکتے ہیں کیوں کہ اس دوری میں انسان کی کوئی کوشش شامل نہیں ہوتی۔ اس غل غپاڑے کے فعل میں، میں بھی کہاں پیچھے تھی سو ایک جملہ ”شیطان میرے پاس سے بھاگ چکا ہے۔ دیکھیں کہیں آپ کی طرف تو نہیں آیا۔ آپ کی طرف دو ہو جائیں گے“ سوشل میڈیا پہ داغ دیا۔ سوشل میڈیا کا ایک فائدہ تو ہے کوئی بھی انفرادی نوعیت کا فعل اجتماعی عمل بن کر ابھر جاتا ہے۔ عمل بھی ایسا کے ہم اس انفرادی نوعیت کے کھیل تماشے کو اجتماعی عمل میں بدل کر معمولی سے معمولی بات کو غیر معمولی بنا دیتے ہیں۔

کچھ فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں لیکن اچھی باتیں خرافات کی نذر بھی ہوتی ہیں۔ یہ تو عام رویہ کے ردعمل میں ہوتا ہے۔ سیاسی رویے میں ہم کسی بھی جماعت یا سیاستدان کی حمایت یا مخالفت میں انتہائی حدود پر کھڑے ہوتے ہیں۔ حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کا قول ہے ”کسی کی مخالفت یا حمایت میں حد سے تجاوز نا کرو کہ حقیقت کھلنے پر تم اپنی حمایت پر شرمندہ یا مخالفت پر پشیمان ہو“۔ یہ اعتدال پسندی ہے۔ جس کے راستے سوشل میڈیا پر معدوم ہیں۔

شرمندگی اور پشیمانی مثبت کردار سازی کی اوصاف ہیں۔ ابھی ہم انتہا پسندی کو حق پر ہونا سمجھتے ہیں۔ ایسا ہم عام زندگی میں بھی کرتے ہیں۔ ابھی اس قول کو سمجھنے میں وقت لگے گا۔ عمل اس کے بعد کی بات ہے۔ ثابت یہ ہوا کے اعتدال کا عمل شیطانیت سے خالی ہے جب ہی یہ عمل ہم سے کوسوں دور ہے۔ بات شیطان کے بغیر کلی طور سے انسان کی ہو رہی ہے انسان جو اپنے وجود کو عمل سے ظاہر کرتا ہے۔ تو کیا انسان کے عمل میں، رویہ میں اعتدال پسندی، توازن اور میانہ روی رمضان کے بابرکت مہینے میں موجود ہے؟

جب کہ شیطان تو قید ہے ہم اس سے آزاد ہیں سو فیصدی۔ چلیں دیکھیں شیطان کے بغیر ہم اور آپ کیا ہیں۔ ماہ الصیام میں ہم انفرادی سوچ اور اجتماعی عمل میں کیا کیا کار گزاری کررہے ہیں۔ معمولات میں یہ فرق آیا کے صبح صادق جاگ جاتے ہیں۔ کھاتے پیتے ہیں۔ اس کے بعد کھانا پینا موقوف۔ بکرے کی طرح نا دن بھر چرتے پھرتے ہیں نا جگالی کرنے کی نوبت آتی ہے۔ (جنک فوڈ، پان سپاری سے دور) یوں صبر و شکر کی طرف خود ہی قدم بڑھ جاتا ہے۔

یہی نہیں خالی پیٹ نیکی اور عبادات کی بھی بھر پور کوششیں کرتے ہیں۔ کوشش کا عمل جس کے لئے ہر انسان آسانی سے تیار نہیں ہوتا۔ باآسانی سوچ کا حصہ بن کر عملی طور سے نظر آنے لگتی ہے۔ یہ انفرادی نوعیت کا عمل اجتماعی عمل کی صورت میں ہوتا ہے۔ انفرادی طور سے عادات میں توازن و اعتدال پیدا ہوتا ہے تو اجتماعی فعل کی صورت ایکا اور بھائی چارگی ہم اہنگ مددگار دکھائی دیتی ہے۔ انسان، شیطان کے بغیر اس ماہ رمضان میں مشکل ترین افعال عتدال اور بھائی چارگی پر عمل پیرا ہوتا ہے اور اسے اس کا ادراک بھی نہیں ہوتا۔

یکسانیت سے انسان بیزار ہوتا ہے راہ فرار چاہتا ہے لیکن رمضان میں ایک جیسا عمل یکسانیت اور بیزاری سے خیالی ہے۔ عین ممکن ہے یہ بیزاری شیطان کا پیدا کردہ احساس ہو۔ آخر بابا آدم سے دشمنی تھی یکسانیت کے احساس نے آدم کو جنت میں بیزار کر دیا تھا۔ جس کو بعد میں بنی آدم نے فطرت کا نام دے کر انسان کو ہی کوسا۔ ہمیں کوسا کوسایا ملا اور آج کے انسان نے من و عن یہ الزام مان لیا۔ ساتھ کہا یہ جاتا ہے کے انسانی فطرت میں بغاوت ہے آدم نے بغاوت کی اسی لئے نکالا گیا لیکن اس الزام پر کہیں کوئی بغاوت نہیں ہوئی جبکہ انسان کو اس بات کی صداقت میں باغی ہو جانا چاہیے تھا۔

بیزاری یقینی طور سے فطری احساس نہیں تھا۔ فطرت قدرت سے عطا ہوئی ہے اور قدرت ہر لمحہ تغیر پذیر ہے حرکت میں ہے۔ اس میں یکسانیت نہیں بیزاری کہاں سے آئے گی۔ اب بیرونی ماحول کی بات کرتے ہیں جیسے قدرتی عوامل گرم موسم اور روزہ جو سخت معلوم ہونے لگتا ہے۔ سیاسی یا حکومتی نا اہلی جیسے بجلی یا گیس غائب، مہنگائی، ٹریفک جام یا تیز رفتاری، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں یا غریبوں کی حالت زار۔ سب ایک طرف کر دیں۔ یہ حالات ہماری سوچ کو بھٹکا دے گی اور ہم انفرادی طور سے انسان کو شیطان کے بغیر سمجھنے سے پہلے نامساعد حالات کے چکر میں گھوم کر بھٹک جائیں گے۔

بھٹکنے کا کام ہم خود ہی انجام دیتے ہیں پھر شیطان ایسے ہی کسی کمزور لمحے بھٹکی ہوئی سوچ اچک لیتا ہے۔ ہم شیطانیت کے ساتھ شیطانیت کوستے رہ جاتے ہیں یا بک جھک کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں عملی طور سے کچھ کرنے سے پہلے دل گرفتہ یا دل برداشتہ بھٹکے اوروں کی سوچ منتشر کرتے ہیں یوں اجتماعی مسائل پر ایک جیسی فکر نہیں بن پاتی۔ فکر بنتی ہے تو تبدیلی آ کر رہتی ہے۔ تبدیلی جس میں تغیر ہے یکسانیت نہیں۔ شیطان اور انسان کا معاملہ انفرادیت سے شروع ہوتا ہے۔

شیطان سے خالی ماہ رمضان انسان کے لئے اپنے عمل اور باطن کا آئینہ ہے۔ اگر ہم نے بیرونی ماحول کھولا تو ہم الجھے ہی الجھے۔ یوں شیطان کے بغیر آپنی کارروائیوں پر نظر ڈالنے سے محروم رہ جائیں گے۔ ہم میں سے ہر ایک ماہ رمضان میں خاص طور سے اسی منتشر اور بھٹکی سوچ کا شکار ہو جاتا ہے ذاتی فعل کا احاطہ نہیں کر پاتا۔ ماہ رمضان کے با برکت مہینے میں خود سے انفرادی طور سے ملیں۔ خود کو پرکھیں۔ آپ مانیں یا نا مانیں لیکن جان لیں کہ آپ کی ذات شیطان سے پوری طرح آزاد ہے۔

پھر اگر ذاتی افعال منفی ملیں تو یہ شیطانیت آپ کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ اللہ شیطان کو قید کرتا یے انسان کو نہیں اس کی بد اعمالیوں کو نہیں۔ آپ کو اپنی شیطانیت خود قید کرنا ہے۔ ہر سال وقت ملتا ہے یا مہلت جو آپ سمجھیں۔ اگر مثبت کار کردگی غالب ہے تو رمضان کی فیض و برکات سے فائدہ اٹھائیں حقیقی خوشی سے سرشار ہوں۔ شکر بجا لائیں اپنے باطن کو کھنگالنے سے بہتر نا کوئی عمل ہے نا کوئی اور مہینہ جو شیطان کے بغیر ہو باطن کا آئینہ ہو۔ اللہ کو آپ کی بھلائی مقصود ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).