پائلو کاہلو کی Adultery، مولانا رومی اور محبت کے چالیس اصول


نظریہ ضرورت یا دنیاوی سمجھداری کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاؤلو کاہلو کا ایڈلٹری (Adultery) ایک عام انسان کی بشری محبت کا افسانہ ہے۔ مگر صوفیانہ رنگ میں روحانی تعلق پر، اگر آپ کو اعتقاد ہے اور زمین پر چلتے قدموں سے آگے ہوا میں اڑ جانے پر بھی آپ یقین رکھتے ہیں تو ایلف شفق کی ایلا کو ایک ماورائی کردار کہہ نہیں پاتے مگر اس کی محبت بشری تقاضوں سے بہت دور وہاں تک جاتی ہے جہاں تک عام انسان قدم دھرتے بھی ڈرتا ہے۔ پھر چاہے یہ عام انسان کے لئے کیسا ہی مشکل راستہ کیوں نہ ہو، یہی راستہ دلربا لگتا ہے۔

لنڈا جب لہروں سے لڑتی کنارے تک آتی ہے تو حاصل پاتی ہے کہ سفر وہیں پر تمام ہوا کہ جہاں سے اس کا آغاز تھا۔ محض ایک سفر، دشت نوردی مقدر میں تھی، محض کچھ قسمت کے دھکے تھے جو اس کی گھر کی دہلیز کے باہر رکھے تھے، جن سے زخمی ہوتے، الجھتی وہ واپس اپنے ہی گھر کو لوٹ آتی ہے اور بالآخر دریافت کرتی ہے کہ جس نخلستان کی تلاش میں نکلی تھی وہ تو خود اس کے گھر کے اندر تھا۔ محبت اس کی زندگی میں موسلا دھار بارش کی طرح آتی ہے جو اس کی زندگی جل تھل کر کے سب مٹی اور گرد دھو کر ساتھ لے جاتی ہے تو واپس اسے اپنے ہی آنگن کی ہریالی اور بسے بسائے گھر کی مدھر خوشبو میں رائے۔ محسوس ہوتی ہے۔ دل میں کسک اور درد سمیٹے وہ بہرحال اپنے گھر کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ محبت کا المیہ یا تجربہ اس کی زندگی کے لئے محض ایک الہام ثابت ہوتا ہے، ایک دریافت کا سفرجو اسے صرف چیزوں کو نئے ڈھنگ سے دیکھنے کا شعور ہی دے پاتا ہے۔

ایلف شفق کی ایلا کی زندگی میں یہ دریافت کا سفر ایک نئے اور اچھوتے خیال سے آگاہی تک محدود نہیں رہتا، اس کی آنکھوں کا خوف پانی کا بلبلہ ثابت نہیں ہوتا، جو کچھ دیر کی لذت یا خوبصورت لمحات کی یاد دے کر کچھ جلتی بجھتی چنگاریاں اس کے دامن میں چھوڑ گیا ہو، بلکہ ایک ایسا موڑ ثابت ہوتا ہے جو اس کی زندگی کا رخ اور رنگ، وجہ اور مقصد سے جغرافیہ تک بدل دیتا ہے۔ محبت اس سے زندگی مانگ لیتی ہے اور بدلے میں اسے صرف محبت کا وہ احساس ملتا ہے جس کی اس کی بے رنگ زندگی میں شدید کمی تھی، تھوڑے ہی وقت کے لئے اسے وہ ساتھ ملتا ہے جو بن کہے بن جانے اس کے مزاج کے ہر موسم کی شناخت کرنے اور ہر روپ میں اس کے ساتھ چلنے پر قادر تھا۔

ایلا ادھیڑ عمری میں اک نئی محبت سے روشناس ہوتی ہے تو گلی کے بے مقصد چکر لگا کر واپس گھر کی طرف لوٹ نہیں پاتی۔ بلکہ اس دہلیز کو وہ ہمیشہ کے لئے اس محبت کے لئے چھوڑ دیتی ہے جو اس پر الہام بن کر اتری۔ اور اس کی زندگی کا ہر زاویہ بدل گئی۔ ہوتی ہے بہت سی زندگیوں کو ایسی ضرورت جس میں رشتوں کا حدود اربعہ ضرور بدل دینا چاہیے مگر اکثر ایشیائی یہ روایت تک بدلنے سے ڈرتے ہیں۔ ایشیائی یورپی ایلف شفق اپنے قلم سے وہ سب کچھ بدل ڈالتی ہے جو اکثر حقیقت میں بدلا نہیں جاتا۔

دوسری طرف مغرب کے پائلو کاہلو کا طاقتور قلم جس کی سرحدوں میں روزانہ بہت کچھ بدل دیا جاتا ہے زندگی کے جغرافیے میں تبدیلی سے ڈرتا ہے اور ایشیائی انداز کی وابستگی اور وفا کا تذکرہ کرتا ہے۔ وہ اپنے مرکزی کردار لنڈا کو گھما پھرا کر اسی گھر کی طرف لے آتا ہے جہاں سے سفر شروع ہوا۔ یہ دونوں مصنفین کے نزدیک اپنی اپنی روایات سے بغاوت اور تبدیلی کا سبق ہے یا ہر تخلیق کار اپنے قاری کو دوسری طرف کا وہ رخ دکھانے کا خواہش مند ہے جو ان کے معاشرے اور روایات میں وجود نہیں رکھتا۔

دونوں میں سے کون سی ترجیح بہتر ہے اور کون سی بدتر اس کا فیصلہ کرتے ہمارے بہت سے معاشرتی اور مذہبی عقائد اس انتخاب پر اثرانداز ہوتے ہیں اس لیے ان کی صداقت سے بڑھ کر میری دلچسپی اس امر سے ہے کہ دو مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی دو مختلف خواتین کس طرح سے ایک جیسے حالات میں کیا ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔

جیکب اور عزیز کے کرداروں میں اور ان کے لنڈا اور ایلا کے ساتھ تعلقات، احساسات اور جذبات میں فرق بھی ان کے مختلف ردعمل کا باعث ہو سکتا ہے۔ لنڈا کا اپنے گزشتہ محبوب سے تعلق سوائے ایک جسمانی کشش کے اور کچھ ثابت نہیں ہو پاتا۔ ۔ جبکہ ایلا اور عزیز کا تعلق یک جان دو قالب کی ایک زندہ گواہی محسوس ہوتا ہے، دو ایسے افراد جو ایک ہی مٹی سے تخلیق کیے گئے ہوں، جن کی خواہش سے لے کر ان کی سوچ وافکار، اڑان و پرواز کا ہر رنگ اور رخ ایک سا ہو۔

لنڈا محبت کے سودے میں انا، عزت نفس، اور وقار سمیت سب کچھ لوٹا کر گھر کو لوٹتی ہے تو محبت کا مظاہرہ اس کے مسٹر پرفیکٹ شوہر کی طرف سے ہوتا ہے جو سب کچھ جاننے کے باوجود مشکل وقت میں اس کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ لنڈا کے لئے یہ واقعات ایک سبق ثابت ہوتے ہیں جو اسے زندگی کی حقیقت کو نئے سرے سے قبول کرنے کی طرف اس کی ہمت بندھاتے ہیں اور وہ محبت کے اس خیال پر راضی رہنے کی کوشش کرتی ہے جو اس نے ایک مختصر مدت میں کشید کیا۔

یہیں پر پاؤلو کی ساری فلاسفی ختم ہو جاتی ہے۔ مگر ایک مشرقی قاری کو یہ آئیڈیا مرغوب دکھائی نہیں دیتا۔ مشرق میں ایسے واقعات کو ناقابل تلافی غلطیاں اور گناہ تصور کیا جاتا ہے اسباق نہیں۔ اور ایسی غلطی چاہے اس سے کیسا ہی حسین سبق اخذ نہ کیا جائے ناقابل معافی ہوتی ہے جس کے لئے کسی بھی انساں خصوصاً عورت کو اپنی عزت و وقار کا سودا کرنا پڑے۔ ترکی کی مشرقی ایلا عزت و وقار سمیت کسی چیز کا سودا نہیں کرتی۔ وہ سودا کرتی ہے گھر کی آسائش کا، بنے بنائے سجے سجائے گھر پر لگائی کئی سال کی محنت کا، بنی بنائی گھر گھرہستی کا، بچوں کی محبت اور شوہر کی سرپرستی کا اور حاصل پاتی ہے من مندر میں تھرتھری لیتے عذابوں کے خاتمے کا، دل کے سکون اور روح کے اس چین کا جو گھر بار، بچوں کے ساتھ میں اسے مل نہ سکا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3