فیس دو گنا اور اسکالرشپ کا خاتمہ: تعلیم دشمن حکومت


شدید معاشی بحران کی صورتحال میں ایک طرف موجودہ حکومت سرمایہ دار طبقے کے تحفظ اور اضافے کے لیے ٹیکس چھوٹ دے دی ہے، دوسری طرف اشیائے خورد و نوش، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر کے عام عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی منطق عجیب ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ٹیکس اضافے اور مختف سبڈسڈی کے خاتمے سے معاشی بحران کا حل ہے۔ اس عوام دشمن قدم کے لیے موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے ساری شرائط تسلیم کر لی ہیں!

ان شرائط میں دفاعی بجیٹ میں کمی بھی شامل تھیں، اس شرط پر عمل تو نہ ہونے دیا گیا، مگر الٹا کمی کے بجائے ہر مالی سال میں دفاعی بجیٹ میں زبردست اضافہ کیا جاتا ہے۔ اب تو ہمارہ ملک دفاعی ساز و سامان پر خرچ کرنے والا دنیا کا گیارہ بڑا ملک بن گیا ہے۔ دوسری طرف تعلیم اور صحت کے شعبہ جات کی بجیٹ میں کمی اور سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ !

گذشتہ ماہ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ایک میٹنگ میں تعلیمی بجیٹ میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے ساتھ اسکالرشپس بھی ختم کر کے داخلہ فیس بھی دگنا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ گذشتہ مالی سال کے دوران تعلیمی بجیٹ کے لیے 9۔ 91 ارب روپے ضرورت میں تھے، مگر جی ڈی پی کا صرف 26۔ 0 فیصد تعلیم کے لیے مختص کر کے تعلیمی بجیٹ میں 14 فیصد کمی کی گئی۔ اب موجودہ حکومت نے مالی سال 20۔ 2019 کے لیے تعلیم کی بجیٹ 50 فیصد کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ !

اس فیصلے کے باعث بہت تشویشناک نتائج نکلیں گے، جس میں نئے اسکالرپشس پر میمورینڈم، جس کے سبب تقریبا 21 ہزار طلبہ متاثر ہوں گے۔ ٹیوشن فیس دگنی کر دی جائے گی، نئے داخلے کم کر دیے جائیں گے۔ نئے جامعات اور کیمپسز کا تعمیراتی کام بند کیا جائے گا۔ تحقیق کے لیے ملنے والے فنڈز ختم ہو جائیں گے۔ بیرون ممالک میں اسکالرپشس پر نظرثانی کی جائے گی۔

بات بہت سادہ ہے کہ تعلیمی بجیٹ میں کمی سے حکمرانوں کے بچے نہیں، نچلے طبقے کے بچے متاثر ہوں گے۔ حکمران طبقے کی اولاد بیرون ممالک کے مہنگے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بڑا مسئلہ تو غریب لوگوں کو درپیش ہے، جو اپنی اولاد کو پڑھانے کے لیے خون پسینے کی کمائی صرف کرتے ہیں۔

سرمایہ دارنہ نظام، جس میں انسان بھی ایک جنس بن گیا ہے، وہاں پر تعلیم کو بھی کاروبار کے لیے جنس بنا گیا ہے۔ بطور جنس تعلیم اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ اپنی اولاد کو تعلیم دلوانا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں رہی۔

کہنے کو تو ملکی آئین موجود ہے، جس کے مطابق ہر شہری کے لیے بنیادی سہولیات بشمول تعلیم اور صحت ریاست کی ذمہ داری ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد محض یوٹوپیا ہے۔ ایک طرف سرکاری تعلیمی ادارے اپنے آخری سانس لے رہے ہیں، دوسری طرف ہر شہر میں نجی تعلیمی اداروں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے، جن کا واحد مقصد پر تعلیم کا کاروبار ہو رہا ہے۔

سال 2015۔ 16 کے دوراں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو 30۔ 2762 ملین روپے ملے، جس کا صرف 52 فیصد خرچ کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے میدان میں پاکستان 140 میں سے 124 ویں نمبر پر براجمان ہے۔ جبکہ پڑوسی ممالک بھارت 90 ویں اور ایران 69 ویں نمبر پر موجود ہے۔ دنیا کی پہلی 6 سو بہترین یورنیورسٹیوں کی رینکنگ میں پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی شامل نہیں ہو پائی ہے۔ جبکہ سعودی عرب کی 3، چین کی 21، بھارت کی 8 اور ایران کی ایک یونیورسٹی شامل ہیں۔

دیکھا جائے تو اس وقت ہائر ایجوکیشن کمیشن مکمل طور پر غیر فعال بن گیا ہے۔ اس بدتریں صورتحال میں، ایک طرف اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ کو لاتعداد مسائل درپیش ہیں، ان کے تدارک کے لیے طلبہ یونین کا حق بھی چھین لیا گیا ہے، دوسری طرف تعلیم کی بجیٹ میں کمی، فیسوں اضافہ اور اسکالرشپ بھی ختم کر کے نچلے طبقے سے آنے والے طلبہ کو تعلیم جیسے بنیادی حق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا جائے؟ اشد ضرورت طلبہ کے تحرک کی ہے، آپس میں جڑنے کی ہے، پروگریسوِ سیاست کرنے والے طلبہ دھڑوں کا حصہ بننے کی ہے، اور مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے، جس سے طلبہ حکومت کے اس تعلیم دشمن فیصلے خلاف یک آواز ہو کر اپنے طلبہ یونیں کی بحالی کا مطالبہ کریں، کیونکہ طلبہ یونین ہی ایسا پلیٹ فارم ہے، جس کے ذریعے طلبہ درپیش تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).