فنکار اور کھلاڑی حضرات! چیریٹی کرنی ہے تو گھر سے شروع کریں


کہتے ہیں حسن وہ ہے جو دیکھنے والے کو حیران کردینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس تعریف کے مطابق پاکستان بے پناہ حسن سے مالامال ملک ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی چھتیس فیصد معیشت غیردستاویزی ہو، کل آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم ٹیکس ریٹرن فائل ہوتا ہو، جہاں ایک بھرپور متوازی معیشت بغیر کسی ٹیکس کٹوتیوں اور آڈٹ کے چل رہی ہو، لگ بھگ چوبیس فیصد آبادی خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہو اور جو باقی ہیں وہ دن رات مہنگائی کا رونا رو رہے ہوں، اس ملک میں اسٹنفورڈ سوشل انوویشن ریویو کی رپورٹ کے مطابق اٹھانوے فیصد آبادی صدقہ، فطرانہ اور زکوۃ کی مد میں سالانہ دو سو چالیس ارب روپے سے زائد کی رقم فلاحی کاموں میں خرچ کرتے ہوئے جی ڈی پی میں تناسب کے اعتبار سے پاکستان کو دنیا کے صف اول کے خیرات دینے والی اقوام میں شامل کرتے ہے۔ یہ بلاشبہ پاکستان کے مثبت تاثر میں سے ایک ہے۔

اسی رپورٹ کے مطابق زیادہ تر خیرات کیش کی صورت میں کی جاتی ہے جس کا صرف تینتیس فیصد ہی فلاحی اداروں تک پہنچ پاتا ہے بقیہ سڑسٹھ فیصد رقم براہ راست افراد کے ہاتھ دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے فلاحی ادارے کامیابی سے چل رہے ہیں اور ان کا سالانہ بجٹ اربوں میں ہی بنتا ہے۔ یہ حیران کن نہیں تو اور کیا ہے۔

پاکستان کے فلاحی اداروں کی فہرست میں ایدھی فاؤنڈیشن اور شوکت خانم کینسر میموریل اسپتال کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ انھوں نے نہ صرف ایک کثیر تعداد کو اس کام کی طرف آنے کی رغبت دی بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی نیک نامی میں اضافے کا موجب بنے ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کو اپنی خدمات کے سبب بانی فلاحی امور کا درجہ دیا جانا غلط نہیں۔ اسی طرح شوکت خانم اسپتال کسی بھی فلاحی گروپ کے لئے ایک منظم ادارتی شکل کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ اسی تسلسل میں اور بھی بہت سے نام ہیں جن کا ذکر ہم گاہے پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ سب اپنی اپنی جگہ بہترین کام سرانجام دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وطن عزیز میں گزشتہ دو تین دہائیوں سے یہ رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ کھیل اور فن کے شعبے سے جڑے معروف ناموں کی اس میدان میں دلچسپی بڑھی ہے اور زیادہ تر کی توجہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں اصلاحات ہیں۔

ہمارے سماجی رویوں کے مطابق کھیل اور فن سے متعلق افراد دیگر فلاحی اداروں کے بانیان کی نسبت بہت جلد کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ان کا عوام میں اپنا تعارف اور نیک نامی ہے جس کو بنانے کے لئے انہیں زیادہ محنت درکار نہیں ہوتی کیونکہ وہ بطور فنکار یا کھلاڑی عوام میں اپنا ایک یادگار اثر چھوڑ ہی چکے ہوتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ صاحبان بذات خود چیرٹی پروگرامز آرگنائز کر کے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم میں پیش پیش ہوتے ہیں اس کے لئے ان کو اپنی فنکار برادری اور کھلاڑی برادری کا بھرپور تعاون میسر ہوتا ہے۔

چنانچہ ان کے بنائے فلاحی ادارے تیزی سے پزیرائی حاصل کرتے ہیں۔ اس کی ایک زندہ مثال عمران خان ہیں جنھوں نے کرکٹ سے کمائی دولت اور شہرت کو کیش کراتے ہوئے نہ صرف شوکت خانم کینسر اسپتال بنایا بلکہ اس ملک کے اعلی ترین انتظامی عہدے تک بھی جا پہنچے۔ بقول شخصے بانوے کے ورلڈکپ نے گویا کہ ان کے لئے ”بھٹو“ کا کردار ادا کیا۔

دنیا بھر میں سیلیبرٹیز کا یہ رویہ ہے کہ وہ فلاح کے کاموں کی خاطر ایک فنڈ قائم کر کے اسے قومی و عالمی اداروں کے حوالے کرتے ہیں جو کہ ان کے پروگرامز اور پراجیکٹس میں مالی معاونت میں مددگار ہوتے ہیں مگر یہاں سلیبرٹیز خود ہی ادارہ قائم کرکے اسے چلانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ جس کا ایک منفی پہلو یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے بنیادی شعبے سے قطع تعلق ہو کر عوام کو اپنی بہترین تفریحی صلاحییتوں سے محروم کردیتے ہیں۔

اس کے باوجود فن اور کھیل سے جڑے تمام سلیبریٹیز کے فلاحی کام اپنی جگہ قابل ستائش ہیں مگر لوگوں نے ان سے کچھ توقعات بھی وابستہ کر رکھی ہیں۔ لوگوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ جن شعبوں نے ان کو عزت، دولت اور شہرت سے نوازا ان شعبوں کی اصلاح اور ان سے جڑے غریب اور بے کس افراد کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔

عمران خان نے بیس برس سے زائد عرصہ تک کرکٹ کھیلی اور بقول ان کے اس کرکٹ کے سبب شاہانہ طرز زندگی بھی گزاری لیکن جب فلاح انسانی کی طرف گئے تو اپنے شعبے کو ہی نظرانداز کردیا۔ ہم آئے روز کسی گولڈ میڈلسٹ، کسی اولمپئین کسی اتھیلیٹ یا دیگر کھیلوں سے جڑے قوم کے سپوتوں کی بدترین غربت اور کسمپرسی میں موت کے واقعات سنتے رہتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک تو کسی نہ کسی طرح میڈیا تک پہنچ پاتے ہیں لیکن اکثریت گمنامی کی موت مر جاتے ہیں۔ حال ہی میں معروف ہاکی پلئیر منصور عالم کی کربناک موت بے حسی کے خلاف ایک صدائے احتجاج ہے۔

اسی طرح فنکاروں کے گروہ میں فخرعالم، ابرارالحق اور شہزاد رائے جیسے نوجوان فنکاروں نے بھی صحت اور تعلیم میں ہی اصلاحات کا بیڑا اٹھایا۔ ان میں سے کسی نے ببو برال، منا لاہوری، نصرت آرا، سکندر صنم، مہدی حسن سمیت دیگر فنکاروں کی کسمپرسی کے ہاتھوں اذیت ناک موت نے چونکنے پہ مجبور نہیں کیا۔

مقصد یہ نہیں کہ یہ حضرات ان فلاحی شعبوں کو ترک کر کے اس جانب آجائیں۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ اپنے فلاحی کاموں کی فہرست میں ایک شعبہ ان کھلاڑیوں اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی اور امداد کے لئے مختص کردیں۔

تسلیم کیا کہ اولین ذمہ داری ریاست کی ہے لیکن جس تعلیم اور صحت کے شعبہ جات میں یہ کام کررہے ہیں وہ بھی تو ریاست کی آئینی ذمہ داری ہیں کہ مفت فراہم کی جائیں۔ یہ بھی تسلیم کیا کہ مخیر حضرات ان کی امداد کیا کرتے ہیں لیکن یہ کوئی مستقل حل تو نہیں۔ کیا یہ لازم ہے کہ ان کی سفید پوشی کو سرعام کسی مارننگ شو میں ننگا کیا جائے۔ یہ بھی تسلیم کیا کہ یہ ذمہ داری صرف ان کے کندھوں پہ ہی کیوں، ان سے متعلقہ ادارتی تنظیموں پر ہی کیوں نہیں تو جو عزت اور اعتماد عوام نے ان کی فلاحی تنظیموں کی کامیابی کی صورت میں دیا ہے وہ توفیق کسی نام نہاد ادارے یا شخصیت کو نہیں دی۔

یہ بھی تسلیم کیا کہ دنیا بھر کے سماج میں ایسی بے حسی پائی جاتی ہے پھر ان پہ ہی اتنا زور کیوں۔ لیکن فکرانگیز بات یہ ہے کہ ہماری قوم کا اپنی طاقت سے بڑھ کر خیرات و امداد دینے کے پیچھے کارفرما قوت وہ دینی جذبہ ہی تو ہے جو اس بے حسی کے تاثر کو زائل کرنے کے واسطے دیتے ہے۔ تو پھر عوام کیوں ان کی مدد کے لئے بھی ساتھ نہیں دیں گے۔

سنا ہے شوکت خانم اسپتال کی ایک شاخ افغانستان میں بھی کھولنے کی تجویز ہے۔ کیوں نہ پہلے ایک اسپتال وطن عزیز کے کھلاڑیوں کے مفت علاج کے لئے کھولا جائے۔ زندگی اور سہارا ٹرسٹ ذرا سی گنجائش پیدا کر کے فنکاروں کے بچوں اور خاندان کو بہترین سہارا مہیا کر کے ان میں نئی زندگی پھونک سکتے ہیں۔ اور یہ صرف ان سے ہی مخصوص نہیں ہر اس فنکار اور کھلاڑی کے لئے ہے جو کسی نہ کسی فلاحی کام سے منسلک رہتے ہیں۔

پاکستان کی یہ ایک حیران کن خوبی ہے کہ یہاں فلاحی کاموں کے لئے زیادہ تر صحت اور تعلیم کا شعبہ ہی چنا جاتا ہے۔ اور یہ رجحان اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے کہ یہاں لوگ فلاحی کام کا وہ شعبہ چنتے ہیں جس سے وہ عملی زندگی میں نابلد ہی رہتے ہیں۔ بہت کم افراد ہیں جو ایدھی اور ڈاکٹر ادیب رضوی کی طرح اپنے آپ کو اپنے شعبے میں فنا کر دیتے ہیں۔ لوگ ان سیلیبریٹیز سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے فلاحی کاموں میں اپنی برادری کو نہ بھولیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).