مسلم دانشوروں سے شدت پسند علما کی زیادتیاں


ابن سینا

لندن سے سعودی امداد سے شائع ہونے والے ایک رسالہ نے مندرجہ ذیل عتاب نامہ شائع کیا ہے۔ ”الکندی، الفارابی، ابن ہیشم اور ابن سیناء جیسے مسلمان سائنسدانوں کی کہانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان ہونے کے سوا ان کی ذات یا کام میں کچھ بھی اسلامی نہیں ہے۔ اس کے برعکس ان کی زندگیاں نمایاں طورپر غیر اسلامی تھیں۔ طب، کیمیاء طبیعات، ریاضی اور فلسفے میں ان کا کام یونانی مکتب خیال کی قدرتی اور منطقی توسیع تھا۔ “ جدید اور قدیم شدت پسندی کے درمیان خیالات کا تسلسل یقینا موجود ہے۔

صدیاں گزرجانے کے باوجود مسلم فلسفیوں اور سائنسدانوں کومعاف نہیں کیاگیا۔ یہ انتہائی شدید تنقید چونکا دینے والی حدتک مغربی نقطہ چینیوں کی اس تنقید سے مشابہ ہے جو وہ مسلم سائنسدانوں پر کرتے ہیں۔ یہ مسلم دانشوروں کی تحقیر ہے۔ ابن سیناء جیسے بڑے طبیب اور دانشور نے زندگی بڑی مشکلات میں گزاری۔ اگر ان کو مطالعہ کرنے اور لکھنے کی سہولیات وافر مقدار میں مہیا کی جاتیں تو وہ مسلم فکروفلسفہ پر اس سے بھی زیادہ کام کرجاتے۔ عقل وحکمت کو ہمارے دور کے شاعر نے بھی بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

ہرخاکی ونوری پہ حکومت ہے خرد کی۔

باہر نہیں کچھ عقل خداداد کی زدسے

عالم ہے غلام اس کے جلال ازلی سے

اک دل ہے کہ ہر لحظہ الجھتا ہے خرد سے۔

ہمارے قدیم زمانے کے سائنسدان اور فلسفی اسی عقل وخیرد سے کام لینے کی مشکلات میں بھی جدوجہد کرتے رہے۔ ابن رشد کا مقام مسلم حکماء میں بہت ہی بلند ہے۔ ان کاتعلق سپین سے تھا۔ یونانی فلسفہ اور نشاۃ ثانیہ کے فلسفیوں کے درمیان مضبوط رشتہ قائم کرنے کا اہم کام سرانجام دینے کے باعث ابن رشد مغرب میں زیادہ مشہور ہیں۔ بین الاقوامی دانشوروں میں ان کا نام صف اول کے ناموں میں آتا ہے۔ قرون وسطیٰ میں فلسفہ، مذہبی اور دینی کشمکش کے دوران کڑ عیسائی اور مسلم علما ابن رشد کی تحریروں کو الحاد اور بدعت قرار دے کر اکثر نظر آتش کرتے رہے۔

ابن رشدکی تحریریں ارسطو پر مفصل اور مضبوط تبصرہ تھیں۔ اس لئے یورپین لوگوں نے ابن رشد کی تحریروں کو بہت جلد لاطینی اور عبرانی میں ترجمعہ کرلیا۔ ان کی لکھی ہوئی عربی تحریر یں کئی ناپید ہوچکی ہیں۔ لوگ انہیں اس لئے ناپسند کرتے تھے کہ وہ وحی کی تشریح کے لئے عقل کو بڑے پیمانے پر استعمال کرتے تھے۔ ان کے کہنے کے مطابق عبادت کی بہترین شکل یہ ہے کہ دماغ کے ذریعے خدا کاعرفان اس کے نظام کامشاہدہ کرکے کیاجائے۔

اس نے عربی زبان کی پیچیدہ لسانی ساخت سے استفادہ کرتے ہوئے قرآن کی تفسیر کے لئے ایک تفصیلی سکیم تیار کی۔ لیکن ابن رشد کو امام غزالی کاردلکھنے پر بڑی شہرت ملی۔ غزالی کا زمانہ ابن رشد سے صرف 70 سال پہلے کاتھا۔ ابن رشد جیسے فلاسفر نے ”تہافت لفلاسفہ“ کاجواب ”تہافت التہافہ“ کی صورت میں دیا۔ غزالی کہتے تھے کہ آگ میں جلانے کی صفت کے لئے اللہ فرشتوں کو اختیار دے کر بھیجتا ہے لیکن ابن رشد اسے مادی اشیاء کی صفت کہتا ہے۔

ان کے مطابق طبعی علت کا اثر طبعی ہوتا ہے۔ پہلے اشبیلیہ اور بعد میں قرطبہ کے قاضی کی حیثیت سے ابن رشد کٹر اور شدت پسند علما کاہر وقت نشانہ تھے۔ وہ آخر کارسیاسی ریشہ دیوانیوں کاشکار ہوگیا۔ انہیں عہدے سے فارغ کردیا گیا۔ خلیفہ کے حکم سے سائنس اور منطق کا مطالعہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اس کی تمام کتابیں نظر آتش کردی گئیں۔ بادشاہ اور عوام کے ایک جلسے نے اسے قرطبہ شہرچھوڑنے کاحکم دے دیا۔ اسے صرف چھوٹے سے دوردراز گاؤں میں رہنے کی اجازت دی گئی۔

12۔ ویں صدی کے آخر میں اس نے مراکش میں وفات پائی۔ مسلم حکماء میں یہ آخری بڑانام تھا۔ جسے بے توقیر کرکے ذلیل وخوار کیاگیا۔ ابن خلدون کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک کیاگیا۔ وہ 19۔ ویں صدی عیسوی تک گمنام رہا۔ 20۔ ویں صدی میں مغربی دانشوروں نے اسے دریافت کیا۔ آرنلڈ ٹائن بی نے لکھا کہ ابن خلدوں نے تاریخ کے فلسفہ کی تحقیق وتدوین کی۔ یہ اس کا بڑاکارنامہ ہے۔ قرون وسطیٰ کے مسلم دانشوروں کی اکثریت کے برعکس ابن خلدون معتزلہ نظریات کاحامل نہیں تھا۔

اس نے ابن سیناء اور الفارابی کی کئی باتوں کوردکیا۔ اس نے باقاعدہ تشریح کرکے بتایاکہ کس طرح زمینی حالات، جغرافیائی خصوصیات، انسانی آبادی کی خصوصیات اور اقتصادی عناصر، سماجی حالات کا تعین کرتے ہیں۔ اس کامقدمہ تاریخ پوری دنیامیں معروف ہے۔ لوگوں نے ابن خلدون کو بھی نہ بخشا اور یہ اعتراض کیاکہ ابن خلدون عصبیت کے تصور کو پیغمبری پرلاگوکرتے تھے۔ عرب دانشوروں کو یہ شکایت تھی کہ ابن خلدون عربوں کے غیر مہذب برتاؤ کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔

اور یہ کہ سنہری مسلم دور کا سہرا زیادہ تر غیر عرب مسلم دانشوروں کے سرباندھتا ہے۔ ”یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ چند مستشنیات کو چھوڑ کرزیادہ ترمسلم دانشور خواہ وہ دینیات کے ہوں یا عقلی علوم کے غیر عرب ہیں“ جواب میں عرب اسے وحشی بربرکہتے تھے۔ جدید دورکے شوکت سمیع نے بغداد میں ایک تقریر میں کہا کہ ”ابن خلدون کی قبر کھودکر اسے مسمار کیاجائے اور اس کی تمام کتب کو جلادیاجائے“ ڈاکٹر طہٰ حسین بھی پیچھے نہ رہے وہ ابن خلدون کو قابل نفرت اناپرست اور ایسا بے ایمان عقلیت پسند قرار دیتا ہے جو مسلمانوں کا روپ دھارے ہوئے ہے۔

قارئین آپ نے دیکھا کہ قدیم مسلمانوں کے زمانے میں سائنس، منطق، ریاضی اور فلکیات پر تحقیق کرنا اور کوئی نئی چیز دریافت کرنا کتنا مشکل کام تھا۔ کئی کی جانیں چلی گئیں۔ کوڑے مارے گئے۔ جیلوں میں بھی ڈالے گئے۔ ان کی ذاتی لائبریریاں جلائی گئیں۔ انہیں ملک بدرکیاگیا۔ یہ ان لوگوں کی ہمت تھی کہ وہ کچھ نہ کچھ سائنس، فلسفہ اور ریاضی میں کرگئے۔ یہ علمی روایت صرف 16۔ ویں صدی تک نظر آتی ہے۔ بعد میں یورپ نے یہ علمی روایت مضبوطی سے پکڑلی۔

اسے بلندیوں تک پہنچایا۔ امریکہ نے تو علمی تحقیقات کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ پوری کائنات کو فتح کرنے کا پروگرام بنایا ہوا ہے۔ موجودہ مسلم دانشوروں کو بھی کھلا روشن اور برداشت والا ماحول ملنا ضروری ہے۔ مذہبی شدت پسندی اوربنیاد پرستی مسلمانوں کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔ سوسائٹی میں سائنسدانوں، فلاسفرز اور دانشوروں کو کھلا ماحول ملے۔ ان کے کام کی تعریف ہو۔ نئے خیالات کو سننا اور برداشت کرنا ضروری ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2