جناب یہ میری دھرتی ہے، کوئی اسٹیشن نہیں!


کراچی پریس کلب کے سامنے گورنر سندھ کی جانب سے دیے گئے سندھ کی تقسیم پر بیان کے ردعمل میں جو مظاہرہ ہوا، اس میں شریک زاہدا حنا، فاطمہ حسن، حبیب جنیدی اور دیگر مثبت سوچ رکھنے اور روشن خیال اردو بولنے والوں نے، کم سے کم لسانی انتہاپسندوں کی پیدا کی گئی زہرآلود سوچ کی ضرور حوصلہ شکنی کی ہے۔ یہ سب روشن خیال لوگ ہمارے لئے قابل عزت ہیں اور اتنے ہی سندھی ہیں جتنی کہ میں ہوں۔

لیکن جس طرح سے روشن خیالی اس ملک میں اقلیت کے سانچے میں پائی جاتی ہے بالکل ایسے ہی ان مخلص دوستوں کی تعداد بھی ایسی ہی ہے۔ اس کی واضح مثال عمران اسماعیل جیسے افراد ہیں جن کو اتنے اہم عہدے پر بیٹھ کر بھی اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہے۔ ایک ہلکے سے جھٹکے سے وہ سوچ باہر آجاتی ہیں ہے جس سوچ کو لسانی انتہاپسندوں نے سالوں سے فروغ دیا ہے۔ سندھ کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے اس کا بھی ایک واضح پس منظر ہے، چونکہ سندھ ایک متحرک صوبہ کی حیثیت رکھنے والا خطہ رہا ہے۔

ملک بننے سے ہی مزاحمتی تحاریک سندھ میں اپنی گردن اٹھاتی رہی ہیں اس لئے یہ بات زیادہ دیر تک ہضم کرنے کی نہیں تھی اس لئے ایک لسانی جماعت بنا کر سندھ کے گلے میں ہمیشہ کے لئے مصیبت ڈال دی گئی جو کہ سندھیوں کو ایک لانگ ٹرم سزا کے طور پر دی گئی ہے۔ اس لسانی گروہ کے نام ضرور بدلتے رہیں گے لیکن اس کی اصل شکل ایک ہی رہے گئی۔ جب بھی معزز اور تہذیب یافتہ قومیں حادثاتی طور پر شہروں یا کسی ملک میں ہجرت کریں تو ان پر قانونی اور اخلاقی طور پر یہ لازم ہوتا ہے کہ اس ملک کی تہذیب تمدن، ثقافت اور زبان کی عزت کریں اور اس کو اپنایا جائے۔ ہمارے یہاں یہ دوست ہر وقت مکہ سے مدینہ کی ہجرت کا حوالہ دیتے ہیں، لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ہجرت عرب کے اندر ہوئی تھی جس میں نہ زبان مختلف تھی نہ ثقافت پھر بھی پیغمبرپاک نے جو مدینے والوں کوعزت دی۔ اس کی اعلیٰ مثال یہ ہے کی اپنی آخری آرام گاہ کے لئے مدینے کو چنا اور مدینے سے محبت کی۔

لیکن جو ہجرت ہندوستان سے ہوئی وہ ایک بالکل مختلف تہذیب سے دوسری تہذیب میں ہوئی۔ کوئی ثقافت اور زبان کا آپس میں کوئی میل جول نہیں تھا۔ جب یہ مہاجرین سندھ میں داخل ہوے تو سندھیوں نے دل کھول کے ان کا استقبال کیا سندھ کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہری اضلاع کراچی، حیدرآباد، سکھر اور میرپور خاص میں بسادیا گیا پھر بھی آپ محروم اور حق پرست ہی رہے۔ زراعت کا کوئی پس منظر نہ تھا پھر بھی پودینے کے باغات کے مضحکہ خیز دعوے کے عوض سندھ کی زرخیز زمیں کلیم کی گئی۔

کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے قلعوں سے لے کر حویلی نما گھر آپ لوگوں کے سپرد کیے گئے۔ جبکہ یہ قانونی طور پر مانی ہوئی بات ہے کہ ان زمینوں اور مکانات پر صرف سندھیوں کا حق تھا۔ پاکستان بننے کے بعد کئی لوگ پنجاب میں بس گئے اور انہوں نے پنجابی اور سرائیکی زبانیں سیکھی اور اس ثقافت کو اپنایا۔ مگر سندھ میں آکر جو پہلا وار ہوا وہ سندھی زبان پر ہوا۔ انکار کیا گیا کہ سندھی زبان نہ بولنی ہے نہ پڑھنی ہے۔ نتیجتاَ 1200 سو سندھی میڈیم اسکول کو کراچی سے رخصتی دی گئی، سندھ یونیورسٹی کو جام شورو منتقل کردیا گیا۔

اور اس کی جگہ اردو میڈیم نے لے لی۔ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ باقی زبانوں کے بھی مزید اسکول کھلتے لیکن سوال یہ ہے کہ میری زبان کے اسکول کیوں بند ہوے۔ ہمارا اردوزبان سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا پر پھربھی آپ لوگوں سے بات کرنے کے لیے ہم نے اردو سیکھی پر آپ لوگوں نے پچھلے پچھتر سالوں سے سندھی نہیں سیکھی۔ یہ شکوہ کس سے کریں۔ باقی امریکا میں جا کر چھ ماہ میں انگریزی تو سیکھ لیتے ہیں۔ جن لوگوں کی کاوشوں سے سندھ کے بڑے شہر تعمیر ہوئے تھے راتوں رات ان کی نام کی تختی اتر گئی اور ایسے ناموں کی تختیاں لگ گئی جن کو ہمارے شہری جانتے تک نہیں تھے نہ ان کا کوئی اس خطے کی تعمیر کوئی حصہ تھا۔ یوں رام باغ سے آرام باغ بن جاتا ہے پھر بھی ہم چپ ہیں۔

پھربار بار یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ملک ہمارے لئے بنایا گیا ہے! تو جناب کوئی میدان دیا گیا تھا آپ کو کہ جا کر اپنے جھونپڑے بنائیں اور زندگی گذاریں۔ جس زمیں پر آپ لوگ آئے، یہاں پہلے سے زندہ وجود رکھنے والی قومیں آباد تھیں جن کی صدیوں کی ثقافت، تہذیب اور دھرتی تھی اور ہے! اس کے ترقی یافتہ شہر، بہتا دریا اور سرسبز کھیت موجود تھے آپ آکراس میں بسے ہیں کچھ بھی خود نہیں بنایا۔ اپنی خوابیدہ آنکھیں کھولیں۔

سندھ کی تقسسیم کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ ہی کسی میں یہ جرات! سندھ صدیوں سے وحدت کا تسلسل ہے اور رہے گا۔ باقی عمران اسماعیل کا بیان غیر ذمہ دار حرکت ہے اس بیان کے بعد کوئی جواز بچتا ہی نہیں ہے کہ یہ شخص سندھ کا گورنر رہے، سندھ کے لوگوں کو یہ حق ہے کہ اس کو مسترد کریں۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ وفاقی حکومت کو اس پر سنجیدگی سے سخت اقدام کرنے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).