دینا زاد کی کتابِ الوداع؟


بیان تو فقط انتظار حسین کے آنسووں کا تھا اور دکھ کئی تھے جو میری آنکھوں کو بھی نم کر گئے۔ شہید اللٰہ قیصر کی ناگہانی اور بے وقت موت یا اُن کی بیگم کا نرم لہجے میں گونجتا ہوا شکووں بھرا بیان، پھر مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک کی دلخراش داستان، اور وہ جو ان تمام باتوں کا راوی تھا یعنی انت مورتی جی وہ بھی صرف یہ دلگداز داستان قلمبند کروانے تک کی مہلت لے کر آئے تھے یا پھر کئی ملکوں کے نمائندوں کے سامنے انتظار حسین کی معذرت اور آنسو اب کہ نم آنکھوں کے ساتھ میرا سر بھی خم تھا اور میں کچھ مزید پڑھنے کی بجآئے دنیا زاد کے شمارہ نمبر 47 کے ورق پلٹنے لگا

صفحہ آخر

اور اعلان کچھ یوں چھپا تھا

دینا زاد کی کتابِ الوداع

میں نے فوراً ابتدائی اوراق سے رجوع کیا جہاں نہ “ستارہ نہ بادبان” تھا مگر اُن ستاروں کا آہوں کے ساتھ ضرور ذکر تھا جو چمک چمک کر آخر ڈوب گئے۔ شعلہ عشق کی تمام رعنائیوں سمیت جو ستارے ڈوب کر “دنیا زاد ” کو سیاہ پوش کر گئے۔ اُن میں انتظار حسین، خالدہ حسین، فہمیدہ ریاض اور الطاف فاطمہ کے نام تو فوراً ذہن میں آتے ہیں، یہ سب لوگ واقعی اپنی ذات میں انجمن تھے۔ یہ ستارے تو ڈوب کر اندھیرے آسمان کی پہنائیوں میں کہیں گم ہوئے مگر بزم تو جاوداں سجی رہنے چاہیے۔ اس خیال کے ساتھ کہ کوئی بھی بزم ہمیشہ کب جمی رہی ہے۔ بادبان ڈوبتے اور اُڑتے رہتے ہیں مگر جانے والوں کے تجربے کو رہبر تسلیم کرتے ہوئے کوئی اور بادبان لے کر پہنچ جاتا ہے۔

اگلی کتاب یعنی شمارہ نمبر 48 کتابِ الوداع ہو گی جس میں کھوئے ہوئے ستاروں یعنی فہمیدہ ریاض، خالدہ حسین، الطاف فاطمہ، اقبال مجید، کرشنا سوبتی، اور نامور سنگھ کی روشنی کا تڈذکرہ ہو گا مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ وہ قلمکار (منیب الحمٰن صاحب) جس کی تخلیقات سویرا کے پہلے شمارے میں بھی شامل تھیں اور “دنیا زاد” کے تازہ پرچے میں بھی یہ سچ کہ وہ چراغِ سحری ہے مگر “دنیا زاد” نامی دیا وہ اپنی آنکھوں کے سامنے کیسے ڈوبتے ہوا دیکھ سکتا ہے اور وہ یارِ طرحدار (احمد مشتاق) جو کبھی محفلوں کی جان تھا اور جس کے فقرے ضرب المثل کی حثیت رکھتے تھے۔ وہ شکم کی آگ بجھانے امریکہ تو ضرور گیا جہاں آسودگی تو حاصل ہوئی ہو گی مگر تنہائی اور اُداسی کے وسیع سمندر سے اسے “دنیا زاد” نے نکالنے میں مدد کی۔ اُن کی شاعری سے کون منکر ہے مگر “دنیا زاد” کی وساطت سے اُن کے تراجم بھی سامنے آئے۔ آپ نے یہ سوچا کہ کتابِ آخر کے بعد وہ پھر تنہائی سے کیسے نبھاہ کریں گے۔

آصف صاحب یاد کریں کیونکہ آپ تو اس بات کے خود گواہ ہیں کہ جس نے “مرحلہِ شوق” کو طے کرنے کے لئے صحرا میں بھی باغبانی کی تھی، “دنیا زاد” کے خیال افروز چراغ کو انہوں نے ہی جلا کر آپ کے سپرد کیا تھا۔ ہم بھلا ضمیر نیازی صاحب کے روشن کردہ چراغ کو کیسے بجھنے دیں گے۔

ابھی کچھ لوگ “دنیا زاد” کے گرد حلقہ کیے ہوئے ہیں جن میں مولوی فضل حق خیر آبادی کہ جن کی علمیت سے مرزا غالب بھی فیضیاب ہوتے تھے اُسی خیر آبادی خانوادے کی عملی میراث کے وارث نعمان الحق صاحب، ادبی معاملات میں جن کی رآئے حرفِ آخر سمجھی جاتی ہے، محمد سلیم الرحمٰن صاحب، عام آدمی سے ڈرنے والے مگر ادبی حلقوں اور ادبی میلوں کے میرِکارواں مسعود اشعر صاحب، خلوص نیت کے ساتھ قلم کو مقدم سمجھنے والی اور حرفوں کی حرمت کی پاسدار نجیبہ عارف اور گل چاندنی کی خالق زہرا نگاہ جیسے لوگ شامل ہیں۔

جب دونوں طرف خاکی وردی والے ٹی۔وی پر گھن گرج کے ساتھ ایک دوسرے کو للکار رہے تھے اور دنیا، دنیا دہشت تھی گمان سب کا یہ تھا کہ اب چلا بلا خیز پٹاخہ جس کا ذکر “مور نامہ” میں آپ کی وساطت سے ہی پڑھا تھا تو اس وقت فاروقی صاحب سرحد کے اُس پار سے “دنیا زاد” کے طفیل ہی “کئی چاند تھے سر آسماں ” کے ابواب کی صورت ہم کو ہمارے تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے آگاہ کر رہے تھے اور دلی سے شمیم حنفی صاحب “دنیا زاد” کے ہر شمارے میں ہمیں یہ بات سمجھا رہے تھے کہ بقا صرف گنگا جمنی تہذیب میں ہے۔ بے باک مگر درویش صفت اجیت کور سے تو ہم واقف تھے اگر “دنیا زاد” نہ ہوتا تو ہم سرحد کے اس طرف والے اس سے بے خبر ہی رہتے کہ ان کی بیٹی ارپنا کیسی عمدہ مصور ہے اور میں وہ دن کیسے بھول سکتا ہوں جب جیلانی بانو کے نام عینی آپا کے خطوط “دنیازاد” میں شائع ہوئے تھے اور سحاب قزلباش جو ماضی کو حال سمجھتی تھی اور اس بات کا اعتراف کرتی تھی کہ “میرا کوئی ماضی نہیں” جب خود ماضی کا حصہ بن گئیں تو صرف “دنیازاد” کے اوراق میں ہی اس کا تذکرہ چھپا۔

“میں بغداد ہوں” اور”عاشق من الفلسطین” تو اب لوگ حوالے کے لئے ڈھونڈتے ہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ “دنیازاد” کے اس خاص شمارے کے بارے کشور ناہید نے کالم بھی لکھا تھا نہ صرف نجیب محفوظ کے خوابوں سے “دنیا زاد” نے متعارف کروایا بلکہ اُن کے آخری دنوں کا آنکھوں دیکھا احوال بھی کشور ناہید نے “دنیازاد” میں بیان کیا تھا۔

نقوش، ادبِ لطیف اور ادبی دنیا کے پرچے جب بھی فٹ ہاتھ پر سجی کتابوں سے ملے، خرید لئے۔ “دنیازاد” کے تمام شمارے میری پاس موجود ہیں “دنیازاد” کے شماروں کے لئے میں نے اپنی لائبریری میں الگ الماری مختص کر رکھی ہے “دنیازاد” کا بند ہونا آصف صاحب ہم سب کو اُداس کر جائے گا۔

آصف بھائی!

مجھے تو اس بات کا یقین کی حد تک گمان ہے کہ “آنگن میں ستارے” چمکتے رہیں گے “لال سبز کبوتروں والی چھتری” آباد رہے گی اور “موسم بہار جیسے لوگ” اُس کے سآئے میں بیٹھ کر “دنیازاد” کے سینکڑوں شماروں کا مطالعہ کر کے دنیا کو آئندہ نسلوں کے لئے رہنے کے قابل بنائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).