مدرز ڈے: حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا


تھامس ایڈیسن معروف موجد گزرا ہے۔ اسے بلا شبہ ایجادات کا جد امجد کہا جا سکتا ہے۔ اس کی مشہور ایجاد برقی قمقمہ تھی۔ اس نے ایک ہزار ناکام کوششوں کے بعد ایسا بلب بنایا جو کچھ دیر روشن ہوا اور پھر اس کی دھات پگھل گئی۔ یہ شخص انتہائی صابر اور مستقل المزاج شخص تھا۔ لوگ اس کا مذاق اڑاتے۔ اسے دیوانہ اور پاگل کے القابات سے پکارا جاتا۔ مگر وہ دل جمعی سے ایک کے بعد ایک تجربات کرتا چلا گیا۔ اس نے کبھی کسی کو پلٹ کر جواب نہ دیا۔ وہ لوگوں کے اڑائے گئے چھینٹوں کو اپنے دامن کی زینت سمجھتا تھا۔

پھر کسی دن خبر اڑی کی تھامس کا کسی سے جھگڑا ہو گیا۔ اور اسے پولیس اٹھا لے گئی ہے۔ کسی کو اس پر یقین نہ ہوا۔ ایڈیسن تھا ہی ایسا صابر۔ بعد میں خبر سچ ثابت ہوئی۔ کسی نے ایڈیسن سے سوال کیا کہ اس کے مزاج میں اس تبدیلی کے پیچھے کیا ہاتھ تھا؟ تھامس گویا ہوا، آج تک جتنے بھی طنز سہے، جتنا لعن طعن برداشت کیا، سب تھامس ایڈیسن کی ذات پر تھا، مگر جب اس شخص نے میری ایجاد کو گالی دی تو میرے اعصاب جواب دے گئے، اور میں اس سے لڑ پڑا۔

تھامس ایڈیسن کا جواب ہمیں قدرت کا ایک شاندار زار کھول کہ سمجھاتا ہے۔ کوئی بھی انسان اپنی ذات کے متعلق اونچ نیچ سے در گزر کر سکتا ہے مگر اپنی تخلیق پر سمجھوتا، اس کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ انسانی رشتوں میں ماں کا رشتہ خلوص اور قربانی کا نمونہ ہے۔ اس بے لوث تعلق کے پیچھے بھی ایڈیسن کا کھولا گیا راز پوشیدہ ہے۔

عورت کی تکمیل تب ہوتی ہے جب وہ ایک وجود کو جنم دیتی ہے۔ بچہ اپنی بنیاد سے لے کر جنم تک ماں کا جسم تک کھا جاتا ہے۔ غذائیت کی کمی کے سارے اثرات ماں سہتی ہے۔ اندر پڑا نیم جاں وجود ماں کے لھو کی بوندیں پی پی کر بڑا ہو رہا ہوتا ہے۔ اپنی نشو و نما کے لیے ماں کی ہڈیاں تک چوس جاتا ہے۔ پورے نو ماہ تک ماں اس کٹھن سفر کو بڑی خوش دلی سے سہتی ہے۔ اور پھر پیدائش کی از حد تکلیف۔ اپنے بدن سے کشید کیے گئے اس ناتواں وجود کو سینے سے لگائے پھرتی ہے۔ تب ایسا لافانی رشتہ طہ پاتا ہے جسے مامتا کہا جاتا ہے۔ جس کی حلاوت اور چاشنی صرف احساس کی زبان سے چکھی جا سکتی ہے۔

12 مئی کو اقوام عالم ماں کا دن منا کر ماں کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں۔ تقاریب ہوتی ہیں۔ پروگرام ترتیب پاتے ہیں۔ ہر شخص اپنے انداز میں اس تشہیر کا حصہ ہوتا ہے۔ کچھ روشن خیال اولڈ ایج ہومز میں پھولوں کا خوش رنگ گلدستہ بھیج کر مامتا کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اور کچھ الٹرا ماڈرن حضرات رات گئے تحائف لیے سوئی ہوئی ماں کے پاس رکھ چھوڑ آتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ وہ سوئی نہیں ہے تمھارا راہ تکتے تکتے اس کی آنکھیں پتھرا گئیں ہیں۔

اب کی بار بھی دن بھی خوب جوش و خروش سے منایا جائے گا۔ ماں کی عظمت پر شاندار سیمینار ہوں گے۔ واکس ہوں گی۔ ڈسپلے پکچرز پر آئی لو یو مام کی تبدیلی آئے گی۔ رنگا رنگ محافل سجیں گی اور بس! مامتا کا حق ادا ماں کو مامتا گری کی اجرت دے دی جائے گی!

دور کسی گاؤں میں، کسی اولڈ ہوم میں یا کسی بے رونق کمرے میں، لرزاں ہونٹ اور تسبیح کے دانے کو حرکت دیتے کپکپاتے ہاتھ ابھی بھی تمھاری سلامتی مانگ رہے ہوں گے۔ اور وہ اس کی تشہیر نہیں مانگتی، کیوں کہ تم اس کے وجود کا حصہ ہو اور اپنے وجود سے محبت بے لوث ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).