بیٹیاں جب روزہ رکھتی ہیں تب پتہ لگتا ہے


مناہل اپنی زندگی کا پہلا روزہ رکھ رہی تھی۔ پچھلے برس روزے کی ضد کیا کرتی۔ اس سے گزشتہ سال بھی روزہ رکھنے پر اصرار‘ دو سال چڑی روزہ کہہ کر سحری کے وقت کھلایا اور صبح افطار کرا دیا۔ اس بار چڑی روزے کا کہا تو فوراً انکار آ گیا۔ رات سونے سے پہلے صورت حال یہ کر دی کہ اس کی ماں اور مجھے ماننا پڑی۔ میں نے پہلا روزہ رکھا تو میری نانی اماں نے دودھ میں جلیبیاں ڈال کر دی تھیں۔

مجھے رات جلیبیاں نہ مل سکیں ۔ بیٹی کے لیے ماں نے کچھ اہتمام کیا تھا۔ سحری کے وقت سب اس کے سامنے رکھ دیا۔ سب حلال ‘طیب و پاکیزہ‘ سادہ، گھر میں بنی چیزیں۔ اس رزق پر باپ کی سوفیصد حلال کمائی خرچ ہوئی تھی۔ دبلی پتلی مناہل پہلے ہی کچھ نہیں کھاتی۔ اس کی سہیلیاں ماشاء اللہ خوب تگڑی ہیں مگر ہماری بیٹی نصف روٹی کھا کر ہاتھ کھینچ لیتی ہے۔ دودھ بڑی مشکل سے پیتی ہے۔

اچھی بات یہ کہ پیزا‘ شوارما اور برگر جیسی چیزیں نہ ہمیں پسند ہیں نہ مناہل کھانا پسند کرتی ہے۔ بھلا ہو سکول والوں کا جنہوں نے صحت مند فوڈ کا سبق پڑھایا، سحری کے بعد تھوڑی دیر سلا دیا۔ رمضان المبارک کا پہلا دن اورمناہل کی زندگی کا پہلا روزہ۔ چھٹی نہیں تھی صبح تیار کیا اور سکول بھیج دیا۔ ساڑھے سات سے آٹھ بجے تک اخبارات آ جاتے ہیں۔ بیگم جھجکتی جھجکتی آئیں اور کہا‘ مینو کو روزہ لگ تو نہیں رہا ہو گا۔ مجھے لگا مجھ پر روزے کی کئی روحانی پرتیں آج پہلی بار آشکار ہو رہی ہیں۔

پہلاروزہ اپنے تن اور من کا ہوتا ہے۔ جب بچہ پہلا روزہ رکھے تو اس کی بھوک اور پیاس کا احساس بھی والدین کے روزے میں آ ملتا ہے۔ میں نے کہہ دیا کہ نہیں نہیں وہ بہت ہمت اور صبر والی بچی ہے۔ تم نے دیکھا نہیں! وہ اپنے کھلونے دوسرے بچوں کو دے کر کتنی خوش ہوتی ہے۔ خود تنہا کچھ نہیں کھاتی مگر ہمسائے سے بچیاں آ جائیں تو ان کے ساتھ مل کر ٹھیک کھا لیتی ہے۔ میں اخبار کھول کر بیٹھ گیا۔

آدھا گھنٹہ گزرا ہو گا کہ بیگم پھر پاس آ بیٹھی ۔ وہ … میں کہہ رہی تھی گرمی کے دن ہیں آج اس نے روزہ رکھ لیا۔ اسے چھٹی کروا لیتے تو اچھا نہ تھا؟ میں نے دیکھا وہ کچھ مضطرب تھی۔ نہیں‘ چھٹی کیوں کرواتے۔ آپ اور میں بھی تو اس عمر میں روزہ رکھا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب چلچلاتی دھوپ والے دنوں میں روزہ رکھ کر ہم اودھم مچایا کرتے تو امی ہمیں کچھ دیر سلانے کے لئے کتنے جتن کیا کرتیں۔

کئی بار تو بڑے سخت دن کاٹے یوں لگتا کہ گلے میں کانٹوں کا کوئی گولا پھنس گیا ہے۔ گھر کے قریب‘ کوٹ لکھپت ریلوے سٹیشن کے عین سامنے برف کا ایک کارخانہ ہوا کرتا تھا۔ عصر کی نماز پڑھ کر وہاں چلے جاتے، برف کے بلاک جب لوہے کے سانچوں میں سے نکالے جاتے تو ان کے اندر برفاب پانی نالی کے رستے چبوترے سے نیچے گرتا۔ہم بچہ لوگ اس نالی کے نیچے کھڑے ہو جاتے۔ یوں لگتا جسم دہکتا لوہا تھا جس پر یخ پانی پڑتا تو ٹھنڈک راحت پہنچاتی۔

روزہ افطار کرنے کا معاملہ بھی سادہ سا تھا۔ چینی‘ پانی اور لیموں سے سکنجبین بنا لی جاتی۔ کچھ کھجوریں ہوتیں اور پھر گھر میں جو پکا ہوتا کھا لیا جاتا۔ آج کے بچوں کو بہت کچھ ہم سے زیادہ ملا ہے۔ سب سے بڑی بات کہ دن رات محنت مشقت کرنے والے والدین باہر کی فکروں کے ساتھ ساتھ بچوں کے کھانے کی فکر اب زیادہ رکھتے ہیں۔ بیگم کو میرا لیکچر پسند نہیں آیا۔ خاموشی سے اٹھ گئیں۔ گیارہ بجے دفتر پہنچنا ہوتا ہے۔

گھر سے نکلتے ہوئے میں نے بیگم کو تاکید کی سکول سے واپسی پر اگر مناہل کو بھوک یا پیاس کی شدت ناقابل برداشت محسوس ہو تو روزہ کشائی کا کوئی بہانہ بنا کر اسے کھانا کھلا دینا۔ دفتر پہنچتے ہی عموماً میں ہر چیز بھول جایا کرتا ہوں۔ اداریہ کے لئے موضوع کے انتخاب پر گروپ ایڈیٹر ارشاد احمد عارف صاحب سے بات ہو گئی تو دل بے چینی سی محسوس کرنے لگا۔ گھڑی دیکھی ایک بج چکا تھا۔

آج مناہل کو بارہ بجے چھٹی ہونا تھی۔ میں نے گھر فون ملایا۔ پوچھا مناہل آ گئی ہے۔ بیگم کی آواز سے پہلے مناہل کی اچھل کود اور شرارت بھری آوازیں کان سے ٹکرائیں۔ جی آ گئی ہے! کھانا کھایا؟ نہیں وہ کہہ رہی ہے کہ مجھے پتہ ہے کوئی چڑی روزہ نہیں ہوتا۔ روزہ صرف مغرب کی اذان کے وقت افطار ہوتا ہے۔ میں نے کہا میری بات کروا دیں۔ مناہل فوراً فون پر آ گئی۔ ’’جی بابا واپس کب آئیں گے۔ میرے لئے دو کمپیوٹر شیٹس اور گلو ٹیوب لے کر آنا۔ صبح سکول لے کر جانا ہے‘‘۔

اسے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ بابااس کی آواز میں بھوک‘ پیاس یا نڈھالی کی کوئی لہر محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے لگا کہ جو بیٹیاں روزے رکھتی ہیں ان کے والدین کی آنکھیں اور کان نباض بن جاتے ہیں۔ پانچ بجے کے قریب کچھ فرصت ہوئی تو بیگم کا فون آ گیا۔ اسے اندازہ ہے کہ عموماً یہ مصروفیت کا وقت ہوتا ہے۔ ویسے گھر سے فون آئے تو آدمی خواہ مخواہ فکر مندی کا شکار ہو جاتا ہے۔ میں نے سلام کا جواب دیا اور مناہل کا پوچھا۔ معلوم ہوا صاحبزادی خوش ہیں۔ افطاری کے لئے ایک دو چیزوں کا کہا اور فون بند کر دیا۔

واپسی پر میں پہلے پھولوں کی دکان پر گیا۔ دیسی گلاب کے چھوٹے چھوٹے پھولوں سے تیار دو ہار خریدے۔ خوشی کی کوئی تقریب مجھے اس وقت تک نامکمل اور ادھوری محسوس ہوتی ہے جب تک کہ اس میں پھول نہ ہوں۔ اس کے بعد باقی چیزیں خریدیں۔ دروازہ مناہل نے کھولا ایک باپ اندازہ لگانا چاہتا تھا کہ اس کی روزہ دار بیٹی پیاس سے مضطرب تو نہیں۔ مجھے لگا کہ روزے نے اپنا ہدیہ وصول کر لیا ہے۔ وہ کچھ نڈھال سی لگ رہی تھی۔

بیگم افطاری کا انتظام مکمل کر چکی تھیں۔ ہم دونوں باپ بیٹی نے اکٹھے وضو کیا۔ میں نے اس کے چھوٹے چھوٹے پائوں اپنے ہاتھوں سے دھوئے۔ ابھی ہم دسترخوان پر بیٹھے ہی تھے کہ مغرب کی اذان ہونے لگی۔ مجھے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کروں۔ پھر میں نے بیٹی کے چہرے پر نظریں گاڑے بیٹھی بیگم سے کہا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے بیٹی کو افطار کروائیں۔ گلاب کے پھولوں کا ہار مناہل کے گلے میں ڈال دیا۔

میں نے دعا کی‘ جانے کیا کچھ دعا میں پڑھا مگر میری بند آنکھوں میں ہنستی مناہل کے سوا کوئی بھی نہیں تھا۔ ساری دعائوں کے جھرنے اس کی سمت بہے چلے جا رہے تھے۔ مجھے لگا ہم کبھی بھی اور کسی عمر میں بھی روزے کی تمام برکتوں اور محسوسات سے واقف نہیں ہو پاتے۔ روزے کی آزمائش کا اندازہ خود روزہ رکھنے سے نہیں ہوتا بلکہ اپنے بچوں کو روزہ رکھوا کر دیکھیں، آپ کسی معصوم بچے کو سڑک پر بھوکا پیاسا دیکھ کرخاموشی سے ،لاتعلقی سے گزر نہیں سکیں گے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).