لاڑکانہ میں ایڈز۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی


پیپلز پارٹی والے جب بھی پنجاب اور سندھ کا موازنہ کرتے ہیں، تو لاہور اور لاڑکانہ کا موازنہ کرتے ہیں۔ ہم جیسے سادہ لوح ان کی بات کو اہمیت بھی دیتے ہیں مگر خود بلاول اور آصف زرداری لاڑکانہ والوں کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، اس کی ایک جھلک تازہ ایڈز کے کیسز اور حکومت کا رویہ دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ایچ آئی وی کا بریک اپ کس طرح سامنے آیا، اس میں وفاقی یا سندھ حکومت کا کوئی کردار نہیں تھا۔ رتوڈیرو جہاں یہ وبا پھیلی وہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور شہید بھٹو کے مزار سے ملحق ہے۔ یہاں تک کہ اگر گڑھی خدا بخش کے مزار کمپلیکس پر لائیٹس جلتی ہیں، تو رتوڈیرو کے باسی دیکھ سکتے ہیں، اسی رتوڈیرو میں ایک آٹھ سالہ بچہ عزادر جوکھیو فوت ہوا، جس کے والد کو مقامی ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کے بچے کی ہلاکت کی وجہ ایچ آئی وی وائرس ہے۔

پریشان حال باپ نے نہ صرف اپنا، بلکہ بچے کی روتی بلکتی ماں کے بھی ٹیسٹ کروائے، جو نیگیٹو آئے۔ اب وہ پھر ڈاکٹر کے پاس گیا اور اپنی حیرت و تشویش سے آگاہ کیا تو ڈاکٹر نے ان کو بتایا کہ آپ کے بچے سمیت کوئی 13 بچوں کے ایچ آئی وی پازیٹو کی رپورٹس موجود ہیں، جس کے بعد یہ معاملہ ہمارے سینئر ساتھی یوسف جوکھیو کے ذریعے میڈیا تک پنہچا۔ افسوسناک بات ہے کہ اس معاملے کو سندھ کی وزارتِ صحت نے بالکل ہلکا لیا، دو دن بعد وزیر صحت عذرا پیچوہو نے سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کو ایک گھنٹے کا انٹرویو دیا، جس میں صرف ایک سوال اس حوالے سے لیا اور کہا کہ اس کو ایڈز نہیں ایچ آئی وی کہیں۔

یہ خبر میڈیا پر آنے کے بعد تین بچوں کے دوبارہ ٹیسٹ کیے گئے ہیں، جن میں سے بھی ایک نیگیٹو ہے۔ پی پی ایچ آئی لیبارٹری کے ٹیسٹ قابلِ اعتبار نہیں ہیں۔ اگلے دن سندھ اسمبلی پر اس معاملے پر لب شائی کرتے ہوئے موصوفہ نے کہا یہ کیسز کوئی انہونی بات نہیں، ایسے کیسز پنجاب میں بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی لازمی ہے کہ جس پی پی ایچ آئی لیب کی رپورٹس کو وزیر صاحبہ نے ناقابلِ اعتبار قرار دیا، وزارتِ صحت نے پورے صوبے کو اس ادارے کے حوالے بھی کر رکھا ہے۔

پھر وزارتِ صحت نے آغا خان یونیورسٹی، ڈبلیو ایچ او اور دیگر ڈونر ایجنسیز سے مل کر اسکریننگ کے لئے کیمپ لگائے مگر وہاں حالت یہ ہے کہ ایڈز کنٹرول پروگرام سندھ کے پاس اسکریننگ کے لئے کٹس بھی دستیاب نہیں۔ اس کے لئے وہ وفاقی حکومت کے مرہونِ منت ہیں۔ اس وقت تک مشکل سے 6 ہزار لوگوں کی اسکریننگ ہو پائی ہے، جس میں چار سو سے زیادہ کیسز پازیٹو آئے ہیں، جبکہ علاقے کی آبادی لاکھوں میں ہے۔

ایچ آئی وی پازیٹو کیسز میں سے کچھ تو راہ عدم کوچ کر گئے، کچھ علاج کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے در بدر ہیں، جبکہ لاڑکانہ میں ڈونرز کی مدد سے قائم کیے گئے وارڈ میں اٹھاسی بچوں کا علاج شروع کیا گیا ہے اور وہ بھی برائے نام۔

اس وقت نہ صرف رتوڈیرو بلکہ شکار پور، کشمور اور جیکب آباد اضلاع کے معصوم بچوں میں بھی ایچ آئی وی پازیٹو کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، مگر حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ بلاول بھٹو زرداری، آصف زرداری یا وزیر صحت عذرا پیچوہو تو منظر سے غائب ہیں، سیکریٹری صحت سعید اعوان کوئی 15 دن بعد وائسرائے کی طرح متاثرہ علاقے پنہچے اور ڈاکٹروں سے رپورٹس لے کر واپس چلے گئے۔

بچوں میں ایڈز پھیلانے کا الزام ایک تو اتائی ڈاکٹروں پر لگایا گیا، جو گلی گلی محلے محلے سگریٹ کی دکان کی طرح کلینک کھول کر بیٹھے ہیں، اور آج تک ان کو روکنے کے لئے حکومت کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔ دوسرا ایک ڈاکٹرمظفر گھانگھرو کو گرفتار کیا گیا ہے، دعویٰ یہ ہے کہ وہ خود ایڈز کا شکار ہے اوربچوں کا علاج کرتا رہا ہے، اس کے پاس انجیکشن انفیکٹڈ تھے۔ جس سے بچے متاثر ہوئے۔ اول تو ایک ڈاکٹر جان بوجھ کر ایسا تبھی کر سکتا ہے جب وہ ذہنی مریض ہو یا پھر اس کو کسی ایجنڈا پر اس کام کے لئے بھیجا گیا ہو۔ جس طرح کچھ سال پہلے لیبیا میں ہوا تھا۔

اگر حکومت کا دعویٰ درست مان لیں تو پھر اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ اتنے سارے پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر اور اتائیوں میں مزید کوئی ایسا سماج دشمن یا ذہنی مریض نہیں ہے۔ دوسری بات یہ بھی تو ہو سکتی ہے کسی ایچ آئی وی وائرس کے متاثر شخص کا علاج کرتے ہوئے ڈاکٹر مظفر بھی انجانے میں وائرس کا شکار ہوا ہو۔ کیا حکومت کے پاس اس کا کوئی مکینزم موجود ہے کہ ڈاکٹرز کی صحت پر نظر رکھی جائے، یا یہ کام بھی میڈیا ہی کرے؟

اب ذرا لاڑکانہ کی شہید محترمہ بے نظیربھٹو میڈیکل یونی ورسٹی سے ملحقہ چانڈکا ٹیچنگ ہسپتال کے لیبارٹری کا حال بھی سن لیجیے جہاں پر عملے کے پاس ایچ آئی وی، ہیپا ٹائٹس اور دیگر بیماریوں کے ٹیسٹ کرنے کے لئے معیاری سرنجز موجود ہیں، نہ دستانے۔ حتیٰ کہ مریض کے خون کا سیمپل لینے کے بعد نیڈل کو ڈسپوز کرنے کے لئے کٹرز بھی نہیں ہیں۔ وہ ہاتھ سے نیڈلز توڑتے ہیں یا پھر پھینک دیتے ہیں۔ لیبارٹری میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اور اسٹاف کی زندگیاں صد فی صد رسک پر ہیں۔

یہ بات مفروضہ نہیں کہ لیبارٹری کے ملازم متاثرہ انجیکشن لگنے سے انفیکٹڈ ہو رہے ہیں۔ ایک ملازم ایک موذی مرض میں مبتلا ہو چکا ہے، دوسرے کے ہاتھ میں کچھ دن پہلے ایچ آئی وی پازیٹو خون کی نیڈل لگی ہے، جس کو تین مہینے تک دوائیں کھانے کو دی گئی ہیں۔ اس کے بعد پت چلے گا کہ وہ ایڈز میں مبتلا تو نہیں ہو گیا۔

یہ ہے سندھ کی وزارت صحت کی کارکردگی جو 96 ارب روپے کے بجیٹ سے لوگوں کی اسکریننگ کرنے کے قابل تو نہیں بلکہ چانڈکا ٹیچنگ ہسپتال کی لیبارٹری میں عملے کی حفاظت کے لئے دستانے بھی فراہم نہیں کر سکتی۔ ایسے میں بلاول اپنے حلقے کے لوگوں سے منہ نہ چھپائیں تو کیا کریں؟ کمال کی بات یہ بھی ہے کہ بلاول جگہ جگہ سندھ میں صحت کی سہولتوں کی مثالیں دیتے پھرتے ہیں اور ان کے درباری صبح شام قصیدے پڑھتے رہتے ہیں۔ اب سندھ کے عوام ان سے حساب کیسے لیں گے یہ تو پتا نہیں۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں، کہ ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).