نا کامی، کام یابی کی کنجی ہے


کہا جاتا ہے کہ جب ایڈیسن نے بلب بنانا چاہا تو 999 کوششیں نا کام گئیں اور ہزارویں دفعہ بن گیا۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے 999 نا کام طریقوں کے بعد ہزارویں بار صحیح بلب بنایا اور وہ کام یاب طریقہ ایجاد کیا، جس سے بلب بنایا جا سکتا ہے، تو ایڈیسن نے کہا، نہیں میں نے نا کام نہیں بلکہ 999 وہ طریقے ایجاد کیے ہیں، جن سے بلب نہیں بنایا جا سکتا، اور ہزارویں مرتبہ وہ طریقہ ایجاد کیا، جس سے بلب بنایا جا سکتا ہے۔ وہ طریقہ تبھی ملا، جب میں 999 وہ طریقے ڈھونڈ چکا تھا، جن سے بلب نہیں بنایا جا سکتا۔

نا کامی ایک ایسی شے ہے جسے ہر کوئی بلا سمجھتا ہے اور اس سے دور بھاگتا ہے یہ ایک فطری بات بھی ہے۔ انسان ہمیشہ سے ہی کام یابی کا خواہش مند رہا ہے، اسے اسی کی طلب رہی ہے نا کامی اسے کبھی پسند نہیں آئی۔ ویسے بھی نا کامی کو کون پسند کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے کوشش کرتا ہے کہ وہ ایسی باتوں اور چیزوں سے دور رہے جو نا کامی کی وجہ بنیں۔ اس بات کی وضاحت ایک مشہور مقولے سے کی جا سکتی ہے کہ اگر آپ نے اپنا مستقبل بدلنا ہے تو اپنے عادات بدلیں اور عادات بدلنی ہیں تو اپنی سوچ کو بہتر کریں اور اس کے لیے ارد گرد کے ماحول کو بہتر بنائیں۔ کیونکہ جیسا ماحول ہوتا ہے ویسی ہی انسان کی سوچ ہوتی ہے۔ اچھے اور مثبت ماحول میں رہنے والوں کی سوچ بھی اچھی اور مثبت ہو گی اور اسی طرح ان کی عادات بھی۔

نا کامی بری ہو سکتی ہے۔ تکلیف دہ ہو سکتی ہے مگر یہی نا کامی ہے جو کام یابی کی طرف گام زن کرتی ہے۔ نا کامی سے کام یابی تک جانے کا راستہ ہی ہے جو آپ کو کام یابی کے لیے تیار کرتا ہے اور اس کے قابل بناتا ہے۔ نا کامی آپ کو وہ کچھ سکھاتی ہے جو آپ عام طور پر نہیں سیکھ سکتے۔ زندگی میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو بے شمار نا کامیوں کا سامنا رہتا ہے مگر جب آپ ان نا کامیوں کا مقابلہ کرتے ہیں تو آپ نہ صرف بہت کچھ سیکھتے ہیں بلکہ کام یابی کو بھی اپنے قدم چھومنے پر مجبور کرتے ہیں۔

سفر کا آغاز کیجیے، آہستہ آہستہ اور مستقل قدموں کی ساتھ منزل کی جانب بڑھتے رہیے یہ سوچے بغیر کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں۔ وہ کہاں چلے جا رہے ہیں اور میں کہاں ہوں۔ راستے میں آنے والی رکاوٹوں اور نا کامیوں سے سیکھ کر آگے بڑھتے جائیے۔ ہاں میں مانتی ہوں آپ کو نا کامی کے بعد دکھ ضرور ہے، رونا بھی آتا ہے بعض اوقات رو لیجیے، جتنا رونا ہے رو لیجیے مگر رونے کے بعد پھر سے اٹھیے اور سفر پر چل پڑیں۔ تازہ کوششوں کے ساتھ اور ہمت کے ساتھ، منزل دور ہے مگر ملے گی ضرور۔

نا کامی آپ کو بہت کچھ سکھاتی ہے، نا کامی سہنے کے بعد آپ کو پتا چلتا ہے کہ کون سا طریقہ کار صحیح رہے گا اور کون سا نہیں۔ پھر آپ کے لیے آسان ہو جاتا درست راستے کو منتخب کرنا۔ کوئی بھی کام یابی آخری نہیں ہوتی ہے اور اسی طرح کوئی بھی نا کامی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی ہے یہ ایک سفر ہے جو کام یابیوں اور نا کامیوں پر مشتمل ہے۔ اس سفر میں جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ ہمت اور حوصلہ ہے جس کی بدولت آپ میدان میں جمے رہتے ہیں، مقابلہ کرتے ہیں۔ یہ مقابلہ اگر خود کے ساتھ، اپنی بہتری اور ترقی کے ساتھ ہو تو کام یاب رہتا ہے، سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔

اکثر حالات سے دل برداشتہ ہو کر ہم خود کا دوسروں سے مقابلہ کرنے لگ جاتے ہیں پھر گلے شکوے ہوتے ہیں فلاں نے بھی تو میرا ساتھ سفر شروع کیا تھا مگر فلاں مجھ سے آگے کیسے نکل گیا ضرور کسی دو نمبری کا نتیجہ ہے۔ یہ نظام ہی ایسا ہے۔ ہم یہ نہیں کرتے کہ دیکھیں کہ فلاں نے کیسے یہ کام یابی حاصل کی، کتنی محنت کی اور ہم سے کہاں غلطی ہوئی ہے۔ ہمیں اسے سمجھنا چاہیے اور اس سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا چاہیے دوسروں کی کام یابیوں پر کڑنے سے تکلیف اور پریشانی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اس سے بہتر ہے اپنی محنت بڑھا لی جائے اور کوشش دُگنی کر دی جائے۔

ایک انگریز لیڈر کا کہنا ہے کہ کوئی کام یابی آخری نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی نا کامی جان لیوا ہے۔ یہ ہمت ہے جو اہمیت کی حامل ہے۔

پاہلو کا کہنا ہے کہ اپنے خوابوں کو پہچانیں اور ان کے لیے لڑیں، آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ آپ کو زندگی سے کیا چاہیے اور اس کی کھوج لگائیں۔ کچھ بھی آپ کے خوابوں کو حقیقت بننے سے نہیں روک سکتا سوائے نا کامی کے ڈر کے۔

نا کامی کا خوف سب سے بڑی بیماری ہے جو کچھ کرنے نہیں دیتی، آگے بڑھنے نہیں دیتی اور اس خوف سے نجات صرف آپ خود ہی حاصل کر سکتے ہیں، بار بار میدان میں کود کر۔ ہار اور جیت سے بے پروا ہو کر، مسلسل محنت اور کوشش جب آپ کی نگہبان ہو گی تو کوئی چاہ کر بھی آپ کو ہرا نہیں سکتا ہے۔ نا کامی ایک موقع ہے کہ کیسے اگلی بار اس سے بھی اور زیادہ بہتر انداز میں آگے بڑھنا ہے اور کوشش کرنی ہے۔ یہ نا کامیاں ہی ہیں جو انسان کو بناتی ہیں۔ ہر کام یاب شخص کے پیچھے بے شمار نا کامیاں ہوتی ہیں اور یہی اس کی کام یابی کی وجہ بھی ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).