آئی ایم ایف معاہدہ ڈراؤنا ہے یا “آپ”کی شہرت؟


پاکستان کی تاریخ کا سب سے “ڈراؤنا معاہدہ” پاکستان اورآئی ایم ایف کے مابین ہوچکا۔ ڈراونااس لئے نہیں کہ اس کی بنیاد بڑی سخت شرائط پرہے بلکہ ڈراؤنا اس لئے کہ معاہدے کے ہونے سے قبل ہی اس کے بارے میں اپوزیشن کے خدشات اورموجودہ حکومت کے دوراپوزیشن کے ایسے معاہدوں کے بارے میں وہ بیانات منظرعام پرآئے جن کوہضم کرناکسی کے بس میں نہیں۔

تحریک انصاف کے عمران خان کے ماضی میں اس قسم کے معاہدوں کے بارے میں تنقیدی بیانات اوراس سے پیشگی انکار نے لوگوں کو یقین دلادیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے عمران خان اوران کی حکومت آئی ایم ایف جیسے “استحصالی”ادارے کے ساتھ معاہدے میں نہیں جائے گی پیٹ پرپتھر باندھ لیں گے لیکن اس ادارے کے پاس تو نہیں جائیں گے جس نے بہت سے ملکوں کی معیشتوں کو ڈکارکرانہیں بھکاری بنادیا۔

پھر اسی عمران خان اوران کی حکومت کواسی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے دفاع میں پیش پیش دیکھا گیا یہی سے احساس ہوا کہ ہم جو باتیں سیاسی طور پرکرجاتے ہیں جب حقائق کی دنیا میں آتے ہیں تو ان پرعمل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتااورپھرفولاد رہنما بھی موم کی طرح پگھل جاتے ہیں۔

عمران خان جنہوں نے ماضی قریب کی تقریروں میں اپنے مخالفین آصف علی زرداری اورمیاں نواز شریف کی حکومتوں کو جن باتوں کے لئے سخت تنقید کا نشانہ بنایا اوران پرلعنت ملامت کی اب وہ خود وہی سب کچھ کرگئے ہیں۔ ان کی حکومت کے نئے معاہدے کے تحت پاکستان کوآئی ایم ایف کی شرائط کی بنیاد پر ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہوگا، بہت سے لوگوں کو حاصل ٹیکس استثنی ختم کرنا ہوگا، بجلی اوردیگر ضروریات کی قیمتیں اتنی بڑھانی ہونگیں کہ لوگوں کی چیخیں نکلنا یقینی ہیں کیونکہ تین سویونٹ تک والے گھر کے لئے ہی بجلی سستی ہوگی۔

اسی کے ساتھ ساتھ سٹیٹ بنک کو بھی زیادہ سے زیادہ خودمختاربنانا ہوگا اوربھی بہت کچھ ہے۔وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ صرف انہیں ہی معیشت اس حالت میں ملی ہے اوران سے پہلے تو کبھی ایسا ہوا ہی نہیں تھا حالانکہ وہ اگراپنے وزرا میں سے ہی کسی سے پوچھ لیں توانہیں بتادیا جائے گا کہ ان باتوں میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ خود آصف زرداری اورمیاں نوازشریف کی پارٹیوں کو بھی معیشتیں انہی حالتوں میں ملتی رہی تھیں۔

معاہدے کے ڈراونے ہونے میں تاریخ میں شاید پہلی بارحکومتی اداروں کے اندر موجود سرکاری افسروں کے ایسے بہت سے لکھے ہوئے پیغامات منظرعام پرآئے جس سے احساس ہوا کہ افسرشاہی خود اس معاہدے سے کتنی پریشان ہے اوروہ اپنے ساتھیوں کو کیا مشورے دے رہی ہے اورجب وہ خود اتنی پریشانی کا اظہارکررہی ہے تووہ عام آدمی کو اس معاہدے کے اثرات سے بچانے کے لئے کیا کرسکے گی؟

ان پیغامات کے منظرعام پرآنے سے بھی یہ تاثر ملا کہ اب تو اگر یہ معاہدہ ہوا تو خدا نخواستہ سب کئے کرائے پرپانی پھر جائے گا، ناں صرف حکومتی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا بلکہ افراد بھی اس میں بہہ جائیں گے خود مجھے بھی ایک سابق اعلی حکومتی افسر دوست کے ذریعے دوایسے پیغامات پڑھنے کا موقع ملا جو ایسے افسروں کی جانب سے جاری ہوئے تھے جو حکومت اورآئی ایم ایف کے مابین ہونے والی تمام پیش رفتوں سے واقف تھے اوراپنے دوستوں کو متنبہ کرکے کچھ پیغام دینا چاہ رہے تھے۔

اس ایک پیغام میں دیکھیے وہ کیا کہتا ہے وہ اس خدشے کا اظہار کرتا ہے کہ” آئی ایم ایف کے ساتھ اس معاہدے کے بعد اس سال کے آخر تک ڈالر کی قیمت 165روپے تک بھی جاسکتی ہے، بجلی اورگیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوگا، سات سوارب روپے کے ٹیکسوں کی جو استثنی دی گئی تھی اسے بھی ختم کرنا ہوگا، شرح سود کو بارہ فی صد تک بڑھانا ہوگااورریونیو میں اضافے کے لئے بہت سارے نئے بالواسطہ ٹیکس بھی لگیں گے ” ۔

اس پیغام میں یہ بھی خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ لگتا یہ ہے کہ یہ پروگرام کسی صورت مکمل نہیں ہوگا اوربیچ میں ہی ختم کردیا جائے گا۔اپنے دوستوں کے نام اس افسر کے پیغام میں بڑے واضح الفاظ میں کہہ دیا گیا ہے کہ جتنے بھی ذاتی خرچے کم کرسکتے ہو کرلو اپنے معیارزندگی کو انتہائی نچلی سطح تک لانے کے لئے ذہنی طورپرتیار ہوجاؤ۔ب رے دنوں کے لئے پیسے کو بچالوکیونکہ آگے جو دورآرہا ہے وہ آپ کی زندگی کا بدترین معاشی بحران ہوگا۔

لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی ایک بات کو سمجھنا ہوگا کہ حالات حقیقی طورپرسنگین ہیں اوراس کی سنگینی میں اضافے کے پیچھے حکومت کی بطوراپوزیشن ادا کیا جانے والا کرداراورموجودہ اپوزیشن کا موقف بھی شامل ہے لیکن اس کو تقویت حکومت کی گذشتہ نوماہ کی “کارکردگی ” نے دی ہے ۔

ایسے میں سب سے زیادہ ذمے داری حکومت پرعائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے عمل سے ثابت کرے کہ وہ قرضوں کے اس نظام سے نمٹنے کے لئے پوری طرح تیار ہے لیکن وہ اگراسد عمرجیسے لوگوں کولانے، ہٹانے اورپھرلانے جیسے کام اتنی سرعت سے کرتی رہے گی تو ہم جیسے عام لوگوں کے دل ہولتے رہیں گے کہ جنہیں یہ نہیں پتہ کہ اسد عمر کی اہلیت زیادہ ہے یا نااہلی تو وہ اتنے بڑے معاہدوں کے انڈوں سے کیا بچے نکال سکیں گے اس لئے اس ماحول میں جتنی ضرورت حکومت کو اپنی اہلیت ثابت کرنے کی ہے شاید کسی اورچیز کی نہیں ہے۔

ورنہ ان معاہدوں کی لفظی خوفناکیاں حقیقی خوفناکیوں میں تبدیل ہوتی رہے گی اورلوگ پوچھتے ہیں ہمت ہے تو ان سے ٹیکس لو جو نہیں دے رہے عوام پرمزید بوجھ کیوں ڈالا جارہا ہے؟

بشکریہ روزنامہ مشرق


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).