لوگ نواز شریف کوجیل چھوڑنے کیوں گئے؟


اب کے کہانی نواز شریف کے حکومت سنبھالتے پہلے ماہ میں ہی شروع ہو گئی تھی جب حکومت کو سپریم کورٹ میں سابق فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ شروع کرنا پڑا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ کسی آمر کے ماورائے آئین اقدام کو اعلیٰ عدالت یاپارلیمنٹ سے جائز ہونے کا پروانہ نہیں ملا تھا۔ سپریم کورٹ میں یہ کیس پہلے ہی زیر سماعت تھا۔ لیکن عبوری حکومت نے عدالت میں کہہ دیا تھا کہ آنے والے اس کا فیصلہ کریں گے۔ نواز شریف کی اپنی خواہش بھی یہی تھی۔

بات چلتے چلتے وہاں تک پہنچی اور پورے ملک نے لائیو کیمروں سے دیکھا کہ روانگی تو عدالت کی طرف ہوئی اور منزل دل کے ہسپتال میں جا کر ملی۔

دھرنا ہوا۔ جنرل راحیل شریف کو ثالث اور ضامن کے اختیارات تفویض ہوے۔ پنچھی کو پردیس روانہ کرنے کے راستے ہموار ہوے۔ سب کی جان میں جان آئی۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے ہاتھ سے کشمیر، انڈیا، افغانستان اور امریکہ سے متعلقہ بہت سے اختیارات جاتے رہے۔ (وہ بات سارے افسانے میں جس کا ذکر نہ تھا)

2016 میں مقبوضہ کشمیر میں پٹھانکوٹ اور اوڑی میں مجاہدین نے انڈین فوجی ٹھکانوں پر حملے کیے۔ جواب میں انڈیا نے سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا۔ دونوں ممالک ایک بار پھر جنگ کے دھانے پر پہنچ گئے۔ عالمی طاقتوں کا دباؤ بڑھا۔ جیش محمد کے مولانا مسعود اظہر اقوام متحدہ میں زیر بحث آے۔ دباؤ بڑھا تو پاکستانی سول اور فوجی قیادت سر جوڑ کر بیٹھی۔

جو لڑائیاں میدان جنگ میں نہ جیتی جا سکیں ان کا ایندھن ہمیشہ سے ہی حکومتیں بنتی آئی ہیں۔ چنانچہ سویلین خارجہ سیکریٹری نے وزیر اعظم کے دفتر میں فوجی اور عوامی قیادت کو مخاطب کرتے ہوے بتایا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف اب کام کرنا پڑے گا ورنہ ملک کوتمام دنیا کی نا راضگی کا سامناکرنا پڑے گا۔ اور پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہو گا۔ خبر اگلے دن روزنامہ ڈان میں شائع ہوگئی۔ یہ بات ان کو بہت ناگوار گزری۔ وزیر اطلاعات اور مشیر خارجہ کی قربانیاں دینی پڑی اور طاقت عوامی نمائنددوں کے ہاتھوں سے کچھ اور پھسل گئی۔

پھر پانامہ کا ہنگامہ مچ گیا۔ فلموں سے مثالیں لائی گئیں۔ گاڈ فادر اور سسلین مافیا کا ذکر ہوا۔ لیکن اصل میں صدیوں پرانا ڈاکٹر فاسٹس کا ڈرامہ دوبارہ رچایا گیا۔ جسٹس منیر کی روح دوبارہ حاضر ہوئی۔ کہا جا تا ہے کہ سولہویں صدی کے اس ڈرامہ کے دوران ایک مرتبہ اصل شیطانی روحیں سٹیج پر آگئیں اور کچھ لوگ ان کو دیکھ کر پاگل ہوگئے تھے۔ شیطانی روح سے پو چھا گیا۔ کیا خدا تم کو دوزخ سے زمین پر آنے کی اجازت دے دیتا ہے؟ جواب ملا ہاں ایک دوزخ سے دوسری دوزخ میں جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ سو مولوی تمیزالدین کوپھر بائیں ہاتھ میں اقامہ تھما کر زمین پرپھینک دیا گیا۔

اب تھا واپسی کا راستہ۔ حکم ملا کہ موٹر وے۔ فیصلہ ہوا جی ٹی روڈ۔ جو پاکستان میں ہمیشہ سے عوامی دربار رہی ہے۔ عوام نے نا امید نہ کیا۔ عوام کو تو بغاوت اتنی پسند ہے کہ اگر کوئی تکلفاً ہی نعرہ لگا دے تو اس کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور کوئی نہ بھی ہو تو خود ہی بعض مرتبہ تیار ہو جاتے ہیں اور جو بھی علامت نظر آرہی ہو اس کو بھی مجبور کرتے ہیں کہ آؤاور عزت کما لو۔

”میرٹھ سے باغی دہلی کی طرف روانہ ہوے اور بہادر شاہ ظفر کی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ بوڑھے بادشاہ نے قیادت سے معذوری کا اظہار کیا تو کہا گیا کہ ہمیں آپ کی شکل میں ایک ایسا قائد چاہیے جس پر پوری قوم متفق ہو۔ آپ تنخواہوں اور خزانے کی فکر مت کریں“۔

عوام کو بھی اس گستاخی کا سبق سکھایا گیا۔ مذہبی انتہا پسندوں نے عوامی جلسوں میں گولیاں چلائیں۔ دھرنے دیے۔ جڑواں شہروں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ کفر وغدار کے فتووں اور گالیوں سے برسرمنبر نوازا گیا۔ مذہبی درس گاہوں میں جہاں جوتے باہر اتار کر داخل ہونے کی شرط ہوتی ہے وہاں جوتے سٹیج پر اچھالے گئے۔ پوری قوم کو ہانک کر ایک مخصوص سمت کی طرف لانے کی کوشش کی گئی۔ مخالفین کے لئے الیکشن لڑنا مشکل کر دیا گیا۔

اور پھر پلانٹڈ حکومت، جو پاکستان میں کوئی انوکھی بات نہیں اور کچھ لوگ توگیٹ نمبر چار پرہمیشہ ہی کورنش بجا لائے پڑے رہتے ہیں کہ ہم حاضر ہیں۔ جب بھی آپ مناسب سمجھیں، بلا لیں۔ لیکن یاد رہے سکندر مرزا سے لے کر آج تک کوئی بھی یہاں سے خوش نہیں گیا۔ پنجاب کے ایک سابق گورنر کو پاکستان مسلم لیگ کا سربراہ بنا کر ہرا دیا گیا تو کہا کہ یہ رومال نہیں، ٹشو پیپر تھا۔ وہ ڈسٹ بن میں ہی پڑاختم ہو گیا۔ دور حاضر کے خوبرو عالمی ہیرو کی قسمت میں بھی بے بسی اور درماندگی لکھی جا چکی ہے۔ فیصلے ہوتے کہیں اور ہیں، بس عمل درآمد کرنے کا حکم جاری کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

جونیجو کی طرح کے اصلی سیاستدانوں نے اس ذلت کو قبول کرنے کی بجاے قربان ہو جانا پسند کیا۔ نواز شریف اور بی بی کو بھی باری باری انہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ زرداری نے بھی میمو گیٹ سمیت بہت سے دوسرے مسائل کے ساتھ وزیر اعظم کی قربانی دے کر بمشکل اس پل کو پار کیا۔

اب نواز شریف جھوٹا یا سچا عوام کا پسندیدہ نعرہ لگا چکے ہیں۔ کئی مرتبہ رسوائیوں اور ذلتوں کے ساتھ حکومت کرنے کی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔ شرائط مان مان کر بھی دیکھ لیا۔ کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ عوام تو جمہوریت کا فریب بھی پسند کرتے ہیں۔ ان نے تو ابھی اس کود یکھا ہی نہیں۔ اس کا ثمر چکھا ہی نہیں۔ صرف نام سنا ہے اور وہ بھی کبھی کبھی جب محصورحالت میں مجبورجمہوریت بدنامی کے خوف سے نافذ کی جاتی ہے۔ لیکن وہ اس کے اتنے گرویدہ ہیں کہ جب بھی موقع ملتا ہے کھل کر اصلی عوامی لیڈر کا ساتھ دیتے ہیں۔ وہ بم دھماکوں کی موجودگی میں الیکشن میں ووٹ ڈالنے تو آجاتے ہیں لیکن مفادات اور حکومتی اداروں کے دباؤ کے باوجود ریفرنڈم میں کسی آمر کی حمایت میں گھر سے باہر نہیں نکلتے۔

ہمارے ملک میں سیاسی نظام میں وسیع پیمانے پر تبدیلی اب ضروری ہی نہیں، ناگزیر بھی ہے۔ جمہوریت تومغربی ممالک میں بھی کہا جاتا ہے کہ ارتقائی منازل میں ہے اوروقت کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری آے گی۔ ہم تو ابھی ابتدائی منازل طے کر رہے ہیں۔ عوامی جمہوریت کی بات صرف نواز شریف کر رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے مفادات اور مجبوریوں کی وجہ سے کر رہا ہو۔ لیکن اب بات یہی ہے کہ ووٹ کی عزت کرنا پڑے گی۔ نواز شریف اگر اس مہم کی قیادت کرتا ہے تو عوام اس کے ساتھ جیل تک ضرور جائیں گے۔ اگر نہیں تو ان کی قیادت کوئی اور سنبھال لے گا۔ ووٹ کو عزت دو اب نعرہ نہیں، حقیقت بننے جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).