وہوا کا فلسفی شاعر جہانزیب جہانگیر راز


تحریر: سلمان راشد۔ مترجم: عتیق بزدار۔

جہانزیب جہانگیر راز سے میرا تعارف ان کی ایک نظم کے طفیل ہوا جو انہوں نے ”وہوا“ بی ایم پی پوسٹ کی انسپیکشن بُک میں لکھی۔ یہ نظم پی اے صاحب کی رائے کے جواب میں لکھی گئی جن کا خیال تھا کہ وہوا بی ایم پی پوسٹ کو ختم کر دیا جائے۔ زبانِ اردو پر شاعرانہ عبور اور اقبال کا آہنگ اس رباعی سے جھلک رہا تھا۔

ضلع ڈیرہ غازی خان کے ایک چھوٹے گاؤں میں کھیتران خاندان میں پیدا ہونے والے جہانزیب جہانگیر کو آج بھی اپنا خوشحال بچپن یاد ہے۔ درمیانے درجے کی خاندانی زمینداری کی دیکھ بھال ان کے والد کرتے تھے ( جو سرائیکی، فارسی، اردو اور ہندی کے شاعر تھے ) اور یوں زندگی بہت خوب گزر رہی تھی۔ بھٹو صاحب کی زرعی اصلاحات کے باعث ان کے خاندان کو اپنی زمینوں کو ایک بڑے حصے سے محروم ہونا پڑا۔ اور اب بڑھاپا سر پہ آ پہنچا ہے تو راز صاحب کو مالی مسائل کا سامنا ہے۔

وہ خود کہتے ہیں کہ اوائل عمری ہی سے ان کے حاشیہء خیال میں اچھوتے مضامین آنا شروع ہو گئے تھے۔ سوئے افق دیکھتے تو چرخِ نیلوفریں کی ماہیت پر غور کرتے، تاروں بھری رات دیکھتے تو کائنات کے بارے سوچتے۔ اس کی ابتداء کب ہوئی اور اس کا اختتام کب ہو گا۔ اس کی لامحدود وسعتوں میں بشر کا مقام کیا ہے۔

آٹھویں جماعت کے طالبعلم تھے اور ہنوز فلسفے سے یکسر آشنائی نہ تھی کہ ایک روز اپنے ہم مکتب طلباء کو جمع کیا اور کائنات کے موضوع پر خطاب کر ڈالا۔ وہ سب اسے حیرت سے یوں تکتے رہے جیسے وہ کوئی دیوانہ ہو۔ کیونکہ وہ ایسے امور کی بات کررہا تھا جنہیں انہوں نے کبھی لائقِ اعتنا نہ سمجھا تھا۔ یوں پہلی بار انہیں احساس ہوا کہ ان کے ذہن میں پنپتے ان طرفہ تصورات سے عوام الناس کو کوئی سروکار نہیں۔

مابعد الطبیعاتی مسائل سے دوچار ”راز“، میٹرک کا امتحان پاس کر کے ڈیرہ غازی خان چلے گئے۔ 1966 میں انہوں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا ہی تھا کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور انہیں زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے گاؤں لوٹنا پڑا۔ یہاں حاسد رشتے داروں نے انہیں جائیداد کے معاملات اور مقدمہ بازی کے جھنجٹ میں الجھا دیا۔ مقدمہ بازی کی غیر یقینی صورتحال نے انہیں کوئی اور روزگار تلاش کرنے پر مجبور کیا۔ 1969 میں انہوں نے بطور دفعدار، بارڈر ملٹری پولیس میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی تعیناتی ”وہوا“ پوسٹ پر کی گئی اور ان کی نوکری کا بیشتر حصہ وہیں پر بسر ہوا۔

زمانہ ء طالبعلمی میں ہی انہوں نے ”مخفی“ کا قلمی نام اختیار کر لیا۔ بمعنی پوشیدہ یا پراسرار۔ پھر انہوں نے اپنے آپ کو ”راز“ کہلوانا شروع کیا۔ اب بھی انہیں ویسے ہی مابعد الطبیعاتی مسائل کا سامنا تھا جن سے وہ بچپن ہی سے دوچار رہے تھے۔ سالہا سال کے مطالعے نے ان کی جستجو کو طلبِ صادق میں ڈھال دیا۔ ایامِ جوانی میں مروجہ مذہبی اعتقادات کے تنوع کے سبب ان کی راتیں سوچ میں غلطاں گزرتیں۔ وہ اپنے عقیدے کی راستی کے بارے فکر مند رہتے۔ اور ان سوالوں کا جواب نہ ملنے پر وہ مذہب سے دور ہوتے چلے گئے۔ اگلے کئی برس انہوں نے بغیر کسی عقیدے کے گزارے۔

اس عرصے میں انہوں نے اپنے ذہن کی آبیاری ان کتابوں سے کی جو انہیں اپنے مرحوم والد سے ترکے میں ملیں یا دوست احباب سے عاریتاً ملیں۔ وہوا کے علمی قحط الرجال میں انہی کوئی ایک بھی ایسا رفیق میسر نہ آیا جس سے بامعنی مکالمہ کیا جا سکے۔ وہوا پوسٹ پر وہ اپنا زیادہ تروقت فقط کتابوں کی سنگت میں گزارتے۔ اپنی مابعد الطبیعاتی دلچسپیوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے اقبال، فیض اور فراز کی شاعری پڑھی۔ ان کی ذاتی شاعری بھی انہی شعراء سے متأثر نظر آتی ہے۔

وہ ہمہ وقت مطالعے میں منہمک رہتے تھے اور دفعدار کی وردی کو ناجائز کمائی کا ذریعہ بنانے میں ہرگز دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ یوں وہ ایک سنکی مزاج شخص کے طور پر جانے جانے لگے۔ جہانزیب کہتے ہیں کہ اپنے ساتھیوں کی حرام کی کمائی سے رغبت انہیں بہت ناگوار گزرتی تھی۔ اس پر مستزاد فرائض سے غفلت برتنا ان احباب کا پیہم شعار تھا۔ سو مذہب و عقیدے سے عاری ایک شخص کا کردار اپنے ان تمام ساتھیوں سے افضل تھا جنہیں ایمان اور تقوے کا دعوٰی تھا۔

آخرش حجاب اٹھنے کا لمحہ آن پہنچا۔ چند ایسے پراسرار واقعات پیش آئے جن کی تفصیل بتانے سے جہانزیب ہچکچاتے ہیں۔ تاہم انہوں نے چند خوابوں کا تذکرہ ضرور کیا جو کئی اہم اور غیر اہم واقعاتِ فردا کی پیش بینی کا سبب بنے۔ ان کا کہنا ہے کہ یوں وہ ایک بار پھر مذہب کی طرف پلٹے۔ اور پچھلے چند سال سے اس پر قائم ہیں۔ ادائیگی ء نماز میں بے قاعدگی کے سبب خود کو برملا ایک بے عمل مسلمان کہتے ہیں۔ یہی اعتراف ان کی جرأتِ کردار کا ثبوت ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ پابندی ء نماز کی عادت کم سنی کے دنوں میں ہی استوار کی جا سکتی ہے۔ چونکہ وہ ان دنوں اس کا اہتمام نہ کر پائے تو اب کہ یہ عادت اپنانا قدرے مشکل ہے۔ لیکن اب انہیں اپنے خالق سے یک گونہ لگاؤ پیدا ہو چکا ہے اور وہ اس کی رحمتوں کے شاکر ہیں۔

ان کی ذات سے وابستہ کارناموں کی فہرست شاید اتنی طویل نہیں مگر ”وہوا“ کے راستے ہونے والی اسلحہ سمگلنگ پر چشم کشا رپورٹ ترتیب دے کر انہوں نے ملک و قوم کے لیے اپنی خدمات بطریق احسن انجام دیں۔ اسی کی دہائی کے آغاز میں جدید اسلحے کی بھاری مقدار اس راستے کراچی سمیت سندھ کے مختلف حصوں میں پہنچائی جانے لگی۔ اس رپورٹ میں انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ سندھ کے بدقسمت صوبے میں کوئی بڑا سانحہ ہونے کو ہے۔

ان کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ سندھ کا صوبہ تاحال داخلی بد امنی سے سنبھل نہیں پایا۔ ان کی رپورٹ کو فائلوں میں دبا کر بھلا دیا گیا۔ پی اے صاحب نے کہا ”راز“ اپنی رپورٹیں اور عرضداشتیں لکھنے کے شوق کی تسکین کر رہا ہے اور اسے کچھ بھی خبر نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ حالانکہ ”راز“ پوری طرح باخبر تھے۔ اور وہ اس مکروہ دھندے کے سرپرستوں کو بخوبی جانتے تھے۔ شاید انہی با اثر لوگوں کی وجہ سے راز کی رپورٹ پر کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی۔ ”محب وطن“ لوگوں نے سندھ اور کراچی کو بے رحم خانہ جنگی کے دوزخ میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

انہوں نے اٹھائیس سال مکمل ایمانداری سے ملازمت کی۔ بے داغ شہرت اور نیک نامی کمائی۔ منافقت پر مبنی معاشرے میں انہیں سوائے نیک نامی کے کوئی صلہ نہ ملا۔ اب ملازمت سے سبکدوش ہوئے تین دہائیاں بیت چکی ہیں۔ گو انہیں مالی مسائل اور عارضہ ء قلب کا سامنا ہے مگر وہ مطمئن ہیں کہ انہوں نے تمام عمر حرص اور بدعنوانی سے دامن بچائے رکھا۔

ان کا کلام کبھی باقاعدہ طور پر شائع ہو کر قاری تک نہ پہنچ سکا۔ مگر انہیں اس کی مطلق کوئی پروا نہیں۔ انہوں نے قدرے بے نیازی سے بتایا کہ ان کا کلام مختلف بیاضوں اور کاغذوں کے پرزوں پر بکھرا پڑا ہے۔ جمع کیا جائے تو شاید دو جلدیں مکمل ہو جائیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک اور نسخہ بھی لکھا ہے جو ان احوال باطن پر مبنی ہے جو مذہب کی طرف مراجعت کا سبب بنے۔ پاکستان میں کتابوں کی اشاعت پر زرِ کثیر خرچ کرنا پڑتا ہے جو کہ انہیں میسر نہیں۔ ایک حزنیہ مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے کہا شاید کسی روز ان کا کلام شائع ہو جائے اور قارئین میں مقبول بھی ہو جائے۔ تب وہ اپنی کتاب کی تقریبِ رونمائی پر بلائے جانے کے لیے اس عالمِ فانی میں موجود نہ بھی ہوں تو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).