روشن فکر اور تاریک دنیا کا ایک سیاسی کارکن


اسے تو صحیح طرح سے یاد بھی نہیں کہ اپنی پارٹی سے پُر خلوص وابستگی اور اپنی بد بختیوں کا آغاز اس نے عمر کے کس حصّے میں کیا شاید نوجوانی سے بھی بہت پہلے کہیں بچپن کے آس پاس

لیکن ٹھہرئیے اگر ہم لکھنے والے سیاسی لیڈروں کی کرپشن اور بے تحاشا جھوٹ سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کے ”اقوال زریّن“ پر روز و شب بحث کرتے اور صفحے کے صفحے سیاہ کر سکتے ہیں تو کیا ایک گمنام لیکن حد درجہ مخلص سیاسی کارکن کا حق نہیں بنتا کہ اس کی قربانیوں کے طویل سلسلے اور غضب کی نظریاتی کمٹمنٹ کو موضوع سخن بنائیں۔

یہ قربانیوں کے پیکر اور نظریاتی خاک نشین سیاسی کارکن پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں یہی خاک نشین اپنے لیڈروں کے نصیب سنوارتے اور اپنے نصیب بگاڑتے عمریں بتا دیتے ہیں۔ ان دیوانو ں میں سے ایک حبل الورید مانیری ( عرف عام میں وریدخان ) بھی ہے

ورید خان بچپن ہی سے عوامی نیشنل پارٹی ( تب نیپ) سے وابستہ ہوا نظریاتی طور پر وہ دن بدن ”سرخا“ ہوتا گیا حتٰی کہ سوشلسٹ نظریات اس کے رگ و پے میں اُتر گئے۔

پھر وہ اپنا گھر تو کیا اپنا آپ بھی بھول گیا اس دوران اسے اگر کوئی چیز یاد رہی تو وہ یا تو اپنی پارٹی تھی یا اپنا نظریہ لیکن اس بے فکری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے خاندان کے مالی حالات قدرے بہتر تھے۔

ورید خان کے والد صالحین کا کا ضلع صوابی ( خیبر پختونخواہ) کا ایک جانا پہچانا نام تھے کیونکہ صوابی کچہری میں تمام دیہات سے آنے والے سائلین اپنے اپنے کام سے فارغ ہوکر جس ہوٹل میں کھانا کھانے یا چائے پینے آتے اس ہوٹل کے مالک صالحین کاکا تھے جو اپنی شرافت اور ایمانداری کے بل بوتے پر نہ صرف کامیابی کے ساتھ اپنا کاروبار چلاتے رہے بلکہ اپنی شرافت اور وضع داری کی وجہ سے حد درجہ معزز اور مقبول بھی تھے۔

ستر کے عشرے کے آتے آتے ورید خان کی جوانی مزید نظریاتی سرکشی کے ساتھ شروع ہوگئی اور یوں سانحوں نے گھر کی راہیں دیکھ لیں۔ اب روز کوئی انتظامی افسر آکر ان کے ہوٹل کے دروازے پر کھڑا ہوتا اور بھاری جرمانے کا کاغذ ورید خان کے بوڑھے والد کے ہاتھ میں تھما دیتا۔ مالی حالات بگڑنے لگے تو رومان پرست انقلابی نوجوان وریدخان نے غمِ دوراں کا رُخ کیا اور دوسرا ہوٹل بنا کر کام شروع کیا لیکن چند دن بعد ایک مجسٹریٹ پولیس کے جم غفیر اور ایک دیو ہیکل بلڈوز کے ساتھ نمودار ہوئے اور پل بھر میں ہوٹل کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرکے چلتا بنا۔

ورید خان تسلسل کے ساتھ انقلاب کی دلہن کا سنگار کرتا اور اپنی اور اپنے خاندان کی قسمت سے کھیلتا رہا، حتٰی کہ ملک پر ضیائی مارشل لاء مسلط ہوا اور اب کے کمانداروں کا نشانہ ورید خان کی جسمانی آزادی تھی سو وہ ایک جیل سے دوسری جیل جاتا رہا اس کا بوڑھا والد چارپائی سے لگ چکا تھا لیکن اس دوران ورید خان کا سُسر (جس کی نرینہ اولاد نہ تھی) اس کے بچوں کی دیکھ بھال کرتا رہا۔

80 کے عشرے میں جب ورید خان ہری پور میں طویل جیل کے دن کاٹ رہا تھا تو اس کے والد اور سُسر یکے بعد دیگرے چل بسے اور اس کے گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔

بچے چھوٹے تھے اور وریدخان کی بیوی مرگی (Epilepsy ) کی مریضہ تھی۔ وہ گھر میں اچانک گر جاتی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی چیخیں آسمان کو چھوتیں۔ ایک طویل قید و بند اور اذیتیں سہتے سہتے وہ نظریاتی کندن تو بن چکا لیکن بخت کی بے رخی اس سے ہمیشہ چمٹی رہی۔ کبھی میں نے اس سے پوچھا تھا کہ طویل اور مصائب و آلام سے پر سیاسی اور نظریاتی جدوجہد میں پسپائی یا پشیمانی کا کوئی موڑ بھی آیا تھا؟

اس کی آنکھوں میں ایک اجنبی چمک عود کر آئی اور خلاف معمول قدرے بلند آواز سے دوٹوک لہجے میں کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا قطعاً نہیں کیونکہ اگر صرف اپنے لئے جینا ہو تو وہ تو جانور بھی کھانے اور سائے کی تلاش میں نکلتے ہیں نظریہ تو صرف انسانوں کے ہاں ہوتا ہے اور یہی چیز اسے دوسروں سے معتبر اور ممتاز ہی بناتی ہے۔

ورید کی جوانی تو کب کی رُخصت ہوچکی لیکن دیوانگی ابھی تک اسی آن بان کے ساتھ قائم ہے جیسے پہلے روز تھی وہ اب بھی اسی پارٹی سے اسی جنون کے ساتھ وابستہ ہے، جس کی محبت نے اسے اچھے دنوں اور آسودہ موسموں سے ہمیشہ دور رکھا، وہ اب بھی اپنی پرانی چادر اوڑھے اپنی خلیل جبرانی آنکھوں اور درویشانہ مسکراہٹ کے ساتھ پارٹی کا دفاع کرتا اور جلسوں کی شان بڑھاتا رہتا ہے۔

وہ اب بھی نظریے کے تقدس اور انقلاب کے خواب پر مر مٹتا ہے وہ اب بھی خوابوں کی جادو نگری کا تصور پالتا ہے اور وہ اب بھی شعور اور بیداری کے گیت گاتا ہے۔

لیکن اس دیوانے کو کیا معلوم کہ سیاست تو نظریات کے محاذ سے کب کی پسپا ہوچکی اب تو وہ کارپوریٹ کلچر کی راہداریوں میں گھومتی اور اپنی قیمت لگاتی رہتی ہے جو ورید خان جیسے نظریاتی تقدس پسند کارکنوں کے بس کی بات ہی نہیں کیونکہ درہم و دینار ان کے پاس ہوتے نہیں اور دلوں کے معاملات سے اس غلیظ سیاست کا واسطہ نہیں۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).