عہدِ قدیم کی خوشحالیاں


میں قدِیم زمانوں کی ایک بوڑھی روح جسے لگتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ لیکن در حقیقت میں خود لوگوں کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ کہ مجھے میری روایات سے پیار نہیں عشق ہے۔ آپ مجھے جدید زمانے میں بھٹکی ایک لاش کہہ سکتے ہیں۔ میں جو پُر سکون وادیوں کی مکین تھی خلوص مجھ میں بستا تھا میرے گردو نواح میں ستم ظرفی نہ تھی، سادگی تھی، عیاری نہ تھی، بلند و بالا عمارتوں کی جگہ مٹی کے کچے گھروندے تھے جس کے کچے فرش پر روز لیپ ہوتا اور مٹی کی سوندھی خوشبو مکینوں کے رگ و پے میں سرائیت کرجاتی اور لوگ بدلے میں وہی خوشبو بانٹتے پھرتے۔

پھر نہ جانے کیا ہوا جانے مجھے کس کی تلاش تھی کہ میری آوارہ روح بھٹکنے لگی میں اک قافلے کے ہمراہ محبت کے گلشن کی سیر کو نکلی تھی۔ کہ بیچ کہیں مفاد پرستوں کے صحرا میں بھٹک گئی اور پھر مجھے ہوس زدہ لوگوں نے خوش آمدید کہا میں اپنے قافلے سے جدا کیا ہوئی، ڈار سے بھچڑی کونج بن کر رہ گئی۔ میں نے اک نئے عہد میں قدم رکھا تو پتہ چلا یہاں بے حسی کا دور دورہ ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ گاڑیوں کا شور ہے۔ سڑک ہو یا کاروبار ہر شخص کو دوسرے سے آگے نکلنے کی جلدی ہے۔

ہر شخص اک ابتلا میں مبتلا ہے۔ میں عہدِ قدیم سے جدید میں آئی تو پتہ چلا یہاں کا مذہب دھوکہ ہے یہ لوگ بظاہر فحش کلام نہیں لیکن فحاشی کو پسند کرتے ہیں۔ ان کو ڈھکی چھپی عورتوں سے بیزاری ہے یہ لوگ راز رکھنا پسند کرتے ہیں لیکن وہ جو اُن کے اپنے ہوں یا اپنے مفاد کے۔ یہ بظاہر بہت پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے ہیں لیکن اُن کا علم والوں سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ علوم کے اسرارورموز سے ناآشنا ہیں۔ یہ اپنی وحشتوں کے عاشق، یہ اپنی خباثتوں پہ مر مٹنے والے۔

ان کے دل میں درد کی جگہ نہیں، اپنوں کی چاہت نہیں۔ یہ دورِ جدید میں سانس لیتے انسان بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح خود کو ہانکے جاتے ہیں۔ یہ ہر طرح کی سہولتوں سے لیس ہیں۔ چھ ارب کی آبادی رکھنے والی دنیا سمٹ کر چھوٹے سے موبائل کی صورت ان کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ یہ جب چاہیں دنیا میں کہیں بھی رابطہ کر لیں۔ اتنے باخبر کہ دور کے دیسوں میں ہوئی قباحتوں کا بھی علم رکھیں۔ اور انجان اتنے کہ پاس بیٹھے انسانوں سے فراموش ہوں۔

یہ تھوڑے خاموش زیادہ مدہوش ہیں۔ دورِ جدید نے نہ جانے کیسی کیسی آفتوں کو اپنے دامن میں پناہ دے کر خود کو فنا کر لیا۔ گوگل کے ایک کلک نے صدیوں کا سفر طے کر لیا۔ آسمانوں پر اڑتے جہازوں نے دنوں کا فاصلہ گھنٹوں میں سمیٹ دیا۔ آہ وہ بھی کیا دن تھے جب دنوں کے سفر مہینوں میں طے ہوتے تھے۔ جب گھوڑے کی ٹاپوں کے ساتھ مسافروں کے دل دھڑکتے تھے۔ تب کوئی ٹیلیفونک رابطہ نہیں ہوتا تھا لیکن مہمانوں کی آمد کا سندیس دیتا کوا کتنا پیارا کتنا معتبر لگتا تھا۔

جب کالا کوا منڈیر پہ بیٹھا کائیں کائیں کرتا کسی کے آنے کا سندیس دیتا تو دلوں میں خوشی اُمڈ آتی۔ گھوڑے کی ٹاپ ابھی بہت دور ہوتی کہ کوے کے سندیس پر ہی گھروں میں سوجی کی بھونائی شروع ہوجا تی کہ یقین ہوتا کوئی آرہا ہے۔ سوجی بھوننے کی خوشبو گھر کی دہلیز پار کرتی اور آنے والا صحن عبور۔ لیکن عہدِ جدید اور اُس کے آزار۔ عہدِ جدید میں لوگوں کے گھر بڑے اور دل چھوٹے ہوگئے ہیں۔ کچی مٹی کی جگہ سیمنٹ نے کیا لی کہ دل پتھر ہوگئے۔

مٹی کی خوشبو گھروں سے کیا ختم ہوئی اپنوں کی چاہت بھی اپنے ساتھ لے گئی۔ دیواروں پہ ہوئے رنگوں کی بُو نے اپنوں کی خوشبو ختم کردی۔ مجھے لگتا ہے پتھروں سے گھر کیا بنے، تو آسیبوں نے ان میں بسیرا کر لیا۔ جو باہر والوں کو اندر گُھسنے نہیں دیتا۔ ان میں عالیشان محلوں کی دلداہ آوارہ روحیں بھٹکتی پھرتی ہیں۔ آسائشوں کے حصول کے بعد دلوں کے سکون ختم ہوگئے۔ دھوکہ ان کا مذہب، کرپشن ان کا پیشہ بن گیا۔ جیسے جیسے ان لوگوں نے مصنوعی چیزوں سے خود کو سنوارا ہے ویسے ویسے ان میں خرابی پیدا ہو رہی ہے۔

عہدِ قدیم کی سو سالہ اماں جان بنا میک اپ کے حسین تھی۔ رُخساروں کی سُرخی، لبوں کی لالی قدرتی تھی۔ انھیں اس دور میں رہنے والوں کی طرح جانوروں کی کھال سے بنی مہنگی کریمیں لگا کر خود کو سنوارنے کی ضرورت نہیں تھی۔ نوے کا ہندسہ عبور کر چکے لوگ گنے کا رس اپنے دانتوں سے چُوستے، انھیں سُوئی میں دھاگہ ڈالنے کے لئے عینک کی ضرورت نہ تھی۔ دورِ جدید میں سانس لیتے لوگ جن کے دم سے بیوٹی پارلرز آباد ہیں مگر بیوٹی ہے کہ آ کہ نہیں دیتی۔

دودھ بادام کی جگہ انرجی ڈرنک نے لے لی، جنک فوڈ کے دیوانوں نے ہسپتالوں کو آباد کردیا۔ عہدِ قدیم کے انسانوں میں چاہت تھی، حسد نہ تھا، امن تھا، خلوص تھا، سادگی تھی، اپنائیت تھی، ان کی زندگی ساکت و جامد تھی، ٹھہری رُکی ہوئی، جہاں وقت کا تعین گھڑی دیکھ کر نہیں سورج کی شعاؤں سے کر لیا جاتا تھا۔ عہدِ قدیم کے لوگ بھی عجیب تھے دھوکہ نہیں دیتے تھے، اُن کے پاس آج کے دور کی طرح کی کوئی سہولت نہیں تھی۔ اُن کے کمروں کو ٹھنڈا کرنے والی مشینیں نہیں تھیں، وہ قربانی کے گوشت کو بانٹ دیتے تھے، مہینوں ٹھنڈے ڈبے میں بند نہیں کرتے تھے۔

اُن کے پاس موٹر گاڑیاں بھی نہی تھیں۔ میلوں پیدل چلتے اور پھر بھی تندرست رہتے تھے۔ اُ۔ سندیسہ پہنچانے کے تیز ترین ذرائع بھی نہ تھے۔ پھر بھی سادہ رہن سہن کے ساتھ کیسے خوش رہتے، مطمئن رہتے، صحت مند رہتے۔ گاڑیوں کا شور تھا نہ بسوں کا دھواں۔ آج ہمارے پاس ہر سہولت ہے تیز ترین ذرائع آمد و رفت، ٹی وی جیسا فتنہ، انٹرنیٹ کے نام پر جادو جو ہر سوال کا جواب پلک جھپکنے میں نکال دے۔ سفر کی سہولتوں میں پہیئے کی سواری ایک طرف ہوا میں اڑتے بادلوں کو چیرتے جہاز موجود۔

جانے عہدِ قدیم کے لوگ ان ساری خرافات کے بنا کیسے جیتے تھے۔ ہمارے پاس تو سہولتیں ہی سہولتیں ہیں۔ لیکن نہیں ہے تو سکون نہیں، جو اُن کے پاس وافر تھا، اور ہمارے پاس ہر چیز کی فراوانی ہے لیکن سکون کی کمی ہے۔ کھانے کو بہت سی نعمتیں لیکن صحت کی اجازت نہیں، سچی خوشی رُخصت ہو چکی۔ ہمیں وہ سب میسر ہے جو عہِدقدیم کے لوگ گمان بھی نہیں کر سکتے تھے۔ آج عہدِ جدید کے لوگوں کے پاس ہر جدید سہولت ہے مگر یہ لوگ اس سچی خوشی سے محروم ہیں جس سے عہدِ قدیم کے لوگوں کے دلوں میں روشنی تھی اور ان کے دلوں کے خلوص و سادگی کی وجہ سے ان کے چہرے دمکتے تھے۔ ۔ آہ عہدِ قدیم اور اس کی خوشحالیاں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).