انتہا پسندی کے اسباب اور علاج


انتہاپسندی ایک معاشرتی ناسور ہے جو معاشرے کی اخلاقی اقدار اور امن و سکون کو غارت کردیتی ہیں۔ اسی انتہاپسندی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں شاگرد اساتذہ کو معمولی اختلاف پر قتل کرنے تک آگئے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں انتہا پسندی کے بڑھنے کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔

یہ بغض ہم نے جو سینوں میں پال رکھا ہے
اسی نے سب کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے

معاشرے میں انتہا پسندی کو فروغ دینے میں سب سے بڑا کردار دگرگوں معاشی صورتحال کا ہے۔ جس ملک کے 28 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں، وہاں والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کروانے کے لئے کیسے بھیج سکتے ہیں۔ لہذا بچوں کو ابتدائی تعلیم کے لئے دینی مدارس میں داخل کروا دیا جاتا ہے خ۔ اگرچہ ہمارے بیشتر دینی مدارس دین کی فلاح و بہبود کے کاموں میں مصروف ہیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ بہت سے دینی مدارس ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔ گاہے بگاہے دینی مدارس پر چھاپے مارے جاتے ہیں جہاں سے اسلحہ برآمد ہوتا ہے اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والے لٹریچر بھی حاصل ہوتا ہے جو کہ انتہا پسندی کے فروغ میں بہت بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ انہی نفرت پسند ملاؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کسی شاعر نے کہا ہے

خدا کے نام پہ اپنا مفاد چاہتے ہو
تم اپنے جھوٹے قصیدوں پہ داد چاہتے ہو

خدا سے پوچھو کسی روز استخارہ کرو
تم اِس زمین پہ کتنا فساد چاہتے ہو

انتہا پسندی کو بڑھاوا دینے میں ایک اور انتہائی اہم کردار مذہبی اور مسلکی منافرت کا بھی ہے۔ دنیا کے ہر مذہب اور ہر قوم میں مسالک پائے جاتے ہیں مگر جو شدت پسندی ہمارے ہاں موجود ہے وہ دنیا کے کسی خطے میں موجود نہیں ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹے چھوٹے فروعی اختلافات کو بنیاد بنا کر قتل وغارت کا وہ بازار گرم کر دیا جاتا ہے کہ جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ مغربی دنیا 2 عظیم جنگیں لڑنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ جنگ اور اختلافات کسی مسئلہ کا حل نہیں ہیں بلکہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بڑے سے بڑا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ مگر ہم ابھی تک انہی گھسے پٹے اختلافات میں الجھ کر اپنا اور قوم کا نہ صرف وقت ضائع کر رہے ہیں بلکہ انتہا پسندی کے فروغ میں پیش پیش ہیں۔

ہمارے حکمران اور ریاست گزشتہ کئی دہائیوں سے بہت جارحانہ رہے ہیں۔ اس تعلیمی پالیسی کے زیرِ اثر تیار ہونے والی نسل کو وہ بطور ایندھن استعمال کرتے رہے۔ یوں پاکستان میں شدت پسندی کی فصل پکتی رہی اور اس سے وابستہ عناصر کو بڑھاوا ملتا رہا۔ تنگ نظری، اپنے مذہبی حریفوں سے نفرت، عدم برداشت اور جارحیت ہمارے مزاج کا حصہ بنتی رہی اور ہم دنیا سے کٹتے کٹتے اپنے خول میں بند ہوتے چلے گئے۔

آج بھی پاکستان کا نظامِ تعلیم ایسا کوئی کردار ادا کرنے میں ناکام ہے جس سے عوام میں قرار واقعی سماجی شعور اور انسانی رویے فروغ پا سکیں اور ہم تعصبات کی تنہائی سے نکل کر عالمگیر معاشرے کا باوقار حصہ بن سکیں۔ آج بھی ہمارا نصابِ تعلیم رواداری، انسان دوستی اور مسلّمہ انسانی اقدار پر خاموش ہے اور ہم خطے میں امن، سلامتی اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ آج بھی ہمارے نصاب کے مضامین اپنی کمزوریوں کو زیر بحث لانے کے بجائے غیر ضروری مواد سے اٹے پڑے ہیں۔

رشوت ستانی اور میرٹ کا قتل عام نا انصافی کی مثالیں ہیں، جو انتہا پسندی کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی وجہ سے افراد مایوسی کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں، جب لوگوں کو اپنے حقوق بھی میرٹ پر نہ ملیں تو پھر لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کسی انتہا پسند گروپ کی وساطت سے اپنی محرومیوں کا ازالہ کریں۔ ہمارے سماجی قدروں کے مختلف درجے ہیں، جو کہ متوازن معاشرے کے ڈھانچے سے مناسبت نہیں رکھتے۔ معاشرے میں وڈیروں، جاگیرداروں اور اْمرا کے طبقے کو نہایت عزت کے مقام سے دیکھا جاتا ہے۔

انتہا پسندی کسی مخصوص طبقے تک محدود نہیں، بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں در آئی ہے۔ ملک کی ایک اہم سیاسی جماعت سے قلم کاروں کی اکثریت کو شکوہ ہے کہ اس کے کارکنان ذرا سے اختلاف رائے کو بھی برداشت نہیں کرتے اور اپنے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والوں پر مغلظات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں اس سیاسی جماعت کا دعویٰ ہے کہ ملک کے نوجوانوں کی اکثریت اس کی حامی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ہمارے نوجوان تہذیب کے دائرے سے کیوں نکل ر ہے ہیں؟ درحقیقت یہی وہ فرسٹریشن ہے جس نے معاشرے کی اکثریت کو اپنا شکار بنا رکھا ہے چونکہ نوجوانوں کی اکثریت استحصال کا شکار ہے اور جب کسی نے انہیں تبدیلی کا خواب دکھایا اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے ان کی قوت کو بروئے کار لانا چاہا تو اس قوت کے احساس نے ان نوجوانوں کو بھی فاشزم کی جانب دھکیل دیا۔

اگر ہم اپنے معاشرے سے انتہا پسندی اور شدت پسندی کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں ترجیحی بنیادوں پر کچھ اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام اور نصاب کو ازسرنو مرتب کرنا ہوگا اس میں ایسے اسباق اور ابواب شامل کرنا ہوں گی جن سے انتہا پسندی کے خاتمے میں معاونت مل سکے۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے دینی مدارس میں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہاں کسی قسم کی انتہا پسندی اور شدت پسندی کی تعلیم نہ دی جا سکے بلکہ اسلام کے امن اور رواداری کے پیغام کو عام کیا جائے۔

ہمیں بطور مجموعی اپنے رویوں میں برداشت اور تحمل کا مادہ پیدا کرنا ہو گا تا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جنم لینے والے جھگڑے اور نفرتیں خود بخود ہی ختم ہوجائیں اور اس بڑھتی ہوئی شدت پسندی کو لگام دی جاسکے۔ اگر ہم واقعی انتہا پسندی کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں یہ تمام تر اقدامات فوری بنیادوں پر کرنے ہوں گے تاکہ ہم صحیح معنوں میں ایک پرامن اور روادار معاشرہ تخلیق کرسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).