سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے


جناب خورشید ندیم صاحب!

”ہم سب“ کے ایک نیم مستقل قاری ہونے کی حیثیت سے گزشتہ دنوں جناب خورشید ندیم صاحب کی ایک تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا جس کا موضوع تھا ”مذہب پر کون بات کرے؟ “۔ جیسا کہ عنوان ہی سے واضح ہے کہ محترم خورشید ندیم صاحب نے اس مضمون میں ایک سوال اٹھایا ہے اور اس کا تناظر بیان کرکے کچھ جواب دیے ہیں۔ یہ تحریر اس سوال اور موضوع کی مختصر تنقید و تفصیل ہے۔

موضوع پر اپنی رائے دینے سے پہلے یہ اعتراف ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم ایسوں نے جن صاحب علم شخصیات کو پڑھ کر لفظ کی حرمت سے واقفیت پائی ہے جناب خورشید ندیم صاحب ان میں ایک معتبرنام ہیں۔

میری نظر میں فاضل مضمون نگار کا سوال ”مذہب پر کون بات کرے؟ “ دراصل حقیقت پر نقاب ہے، جس کا انداز گمراہ کن اور جواب بذات خود ایک مسئلہ ہے۔ کیونکہ اس سوال سے قبل کچھ بنیادی سوال ہیں جن کے کچھ نہ کچھ جوابات فرض کرکے ہی یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔ اگر یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے تو اس سے مقدم سوال اٹھانے میں بھی کوئی امرمانع نہیں ہے۔

اصولی طور پر اس سوال سے بھی پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ ”کیا مذہب پر بات ہونی چاہیے؟ “ اس سوال کا جواب ہاں میں دیے یا فرض کیے بغیر مذہب پر بات کرنے والے ڈھونڈنا بے کار جستجوہے۔ اور جب یہ سوال پیش ہوگا تو پھر مذہب، مذہب پر تنقید، مذہب پر عمل اور زندگی میں مذہب کے عمل دخل اور اس کے دائرہ تحکیم (سفیئر آف گورنینس ) جیسے معاملات بھی طے کرنا پڑیں گے۔ پھر یہ بھی طے کرنا پڑے گا کہ مذہب کوئی برتر اور مرکزی حیثیت رکھتا ہے یا اس کی چیثیت ثانوی اور مطیع کی سی ہے۔ جب ان سوالوں کے جوابات دے دیے جائیں گے یا طے کرلیے جائیں گے تو معلوم ہوگا کہ ”مذہب پر بات کون کرے؟ “ والا سوال غیر ضروری ہے کیونکہ پچھلے سوالوں کے جوابات میں ہی اس کا جواب پوشیدہ ہوگا۔

صاحب مضمون نے ان مقدم اور بنیادی سوالوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جب یہ سوال کرہی دیا ہے تو اسی مرحلہ پر ہم اس کے ہم پلہ اور اس نوع کے دیگر سوال بھی کرسکتے ہیں۔ مثلاً مذہب پر بات کرنے ”، “ مذہب کی بات کرنے ”اور مذہبی بات کرنے میں کوئی فرق ہے یا نہیں، اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ فاضل مصنف نے یہ تو بتا دیا کہ مذہب پر مذہبی اور غیر مذہبی دونوں طرح کے لوگ بات کرسکتے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ مذہب پر ہونے والی بات مذہبی ہی ہوتی ہے یا مذہب پر غیر مذہبی بات بھی کی جاتی ہے۔

کیونکہ جب مذہب پر بات کرنے کا فیصلہ ہورہا ہے تو بات کرنے والے ہی کا نہیں بلکہ بذات خود بات کی نوعیت کا تعین کرنا بھی لازمی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ ”مذہب پر بات کرنے“، ”مذہب کی تبلیغ یا اس کے تذکرے“ اور ”مذہب پر بحث و تنقید“ میں بھی کوئی فرق ہے یا نہیں؟ کیا مذہب پر بات، ”بات برائے بات“ ہی ہوگی؟ موصوف کے مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ مذہب پر بات ”تزکیہ نفس“ کے لیے ہوگی اور محترم مصنف نے تزکیہ نفس کے لیے ”تزکیہ علم“ کو لازم قراردیا ہے۔

گویا مذہب پر بات محض سادہ اور عامیانہ نہیں بلکہ علمی ہوگی جوکہ اپنی نوعیت میں سنجیدہ ہوتی ہے۔ مذہب پر بات کا علمی اور سنجیدہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن یہ سنجیدہ بات میڈیا پر ہوگی جس کا سنجیدگی سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ کیونکہ فاضل مصنف مضمون کے شروع ہی میں خبردار کرتے ہیں کہ میڈیا سر تا پا انٹرٹینمنٹ یعنی تفریح، مطلب کھیل تماشا ہے۔ موصوف کو میڈیا کے انٹرٹینمنٹ ہونے پر کوئی شک نہیں، یقین مانیے ہمیں بھی اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن ہم مذہب ایسی سنجیدہ بات کو غیرسنجیدہ پلیٹ فارم یعنی میڈیا پر کرنے کی تلقین نہیں کرسکتے۔ ہمیں اس میں بھی شک ہے کہ میڈیا پر سنجیدہ باتیں کرنے سے میڈیا سنجیدہ ہوجائے گا۔ ہاں اگر تفریح بھی سنجیدگی ہے اور اس سے بھی تزکیہ نفس ہوتا ہے تو پھر صاحب مضمون کی رائے قابل احترام ہے۔

زیر بحث مضمون میں موصوف نے ”اصل سوال“ کے نام پر ایک ا یسا سوال بھی اٹھایا ہے جودرحقیقت اصل نہیں ہے۔ میری رائے میں ان کا اصل سوال یہ ہے کہ ”میڈیا کے لیے مذہب کیا ہے؟ “ جب انہوں نے بتا دیا کہ میڈیا محض تفریح کا نام ہے اور اس کا کام ریٹنگ حاصل کرنا ہے تو میڈیا کے لیے مذہب کیا، خدا بھی تفریح ہے۔ جناب خورشید ندیم صاحب کے دیے گئے ممکنہ جوابات میں سے درست جواب یہی ہے کہ میڈیا کے لیے مذہب جنس بازار ہے اور میڈیا، ریٹنگ یعنی پیسہ کمانے کے لیے مذہب بھی بیچتا ہے۔

اب اس میں تو کوئی شک نہیں کہ تفریح ذریعہ آمدن ہوسکتی ہے اور سچ پوچھیں تو اس ذریعے سے خوب آمدن ہوتی ہے۔ فاضل مصنف نے بتا دیا کہ اس سوال سے ”مذہب کا مطالبہ“ پس منظر میں چلا جاتا ہے اور میڈیا کی ضرورت نفع سامنے آجاتی ہے۔ ہاں مگر ان کے اصلی سوال نے یہ اہم سوال بھی نظر انداز کردیا کہ ”مذہب پر بات کرنے والا میڈیا پر آکر مذہب پر کیوں بات کرے؟ “ ان کا یہ اصلی سوال میڈیا کی اتھارٹی کو مذہب کی اتھارٹی سے بالاتر تصور کرتا ہے کیونکہ میڈیا پر پیش ہونے والا مذہب ہو یا معاشرہ، میڈیا کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔

اس سوال کا مفروضہ یہ ہوسکتا ہے کہ مذہب کاروبار چمکانے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے یا مذہب خود ایک کاروبار ہے۔ اس لیے میڈیا تو مذہب کو لازمی طور پر استعمال کرے گا۔ کیونکہ میڈیا بے رحم منڈی کی منطق اور اپنی ساخت کی نوعیت کے اعتبار سے ایسا کرنے پر مجبور ہے۔ میرے خیال میں میڈیا کا بائی ڈیفالٹ فنکشن مذہب کو تفریح میں بدل دیتا ہے۔ اور صاحب مضمون ہیں کہ مذہب کو ہر صورت سکرین کے سانچے میں فٹ کرنا چاہتے ہیں شاید اسی لیے طلب و رسد کا بے جان اصول پیش کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ میڈیا پر مذہب کے حوالے سے بات کرنے کے جو خوفناک نتائج نکلتے ہیں یہ محض اس کی ادنی ٰ سی جھلک ہے۔

میری رائے میں فاضل مصنف کے غورو فکر کا محور شاید صرف میڈیا ہے اس لیے یہ سوال بھی نہیں کیا گیا کہ ”مذہب کے لیے میڈیا کیا ہے؟ “ حالانکہ یہ سوال بالکل جائز ہے۔ اگرچہ توجہ کا مرکز میڈیا ہی ہے۔ میڈیا کے لیے تو مذہب ایک ”موضوع“ ہے۔ محترم خورشید ندیم صاحب نے میڈیا اور مذہب کے کمرشل رشتے کو تو بیان کردیا اور اپنے طور پر اس تعلق کو خوشگوار بنانے کے لیے میڈیا ئی حل بھی تجویز کردیا لیکن اس فیصلہ میں انہوں نے مذہب کو ”اذن کلام“ دیا ہی نہیں۔

میرے خیال میں صاحب مضمون نے یہ فرض کر لیا ہے کہ مذہب بھی میڈیا پر ضرور نظر آنا چاہتا ہے۔ البتہ انہوں نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ”مذہب میں میڈیا کی کیاحیثیت ہے؟ “ اور اس میڈیا پر آنے کے بعد خود مذہب کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ لہذ ا میری دانست میں اصل سوال یہ نہیں کہ ”میڈیا کے لیے مذہب کیا ہے“؟ بلکہ یہ ہے کہ ”میڈیا پر کس قسم کا مذہب چل سکتا ہے یا یہ کہ میڈیا کس قسم کا مذہب چاہتا ہے؟ “ اور یہ سوال اٹھانے کے لیے کسی مذہبیت کی ضرورت بھی نہیں۔

اگر اس سوال کے لیے غور و خوض کیا جائے تو مذہب اور میڈیا کے حامیان و مخالفین دونوں پر میڈیا کی حقیقت عیاں ہوسکتی ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ میڈیا کے لیے حقیقت کچھ نہیں کیونکہ یہ تو انٹرٹینمنٹ ہے۔ انٹرٹینمنٹ حقیقت نہیں ہوتی کیونکہ حقیقت میں انٹرٹینمنٹ نہیں ہوا کرتی۔ بہرحال میڈیا صرف انٹر ٹینمنٹ ہی نہیں بلکہ ہر چیز کو انٹرٹینمنٹ بناتا ہے اور ہر چیز کو انٹرٹینمنٹ بنانا انٹرٹینمنٹ ہرگز نہیں۔ سنجیدگی کو انٹرٹینمنٹ میں تبدیل کرنا بڑی سنجیدگی کا کام ہے۔

اب آتے ہیں اصول طلب و رسد کی طرف۔ چونکہ میڈیا ایک دکانداری بھی ہے اور دکاندداری کا تقاضا ہے کہ دکان میں نہ صرف مال موجود ہونا چاہیے بلکہ مال کی ورائٹی بھی خوب ہونی چاہیے۔ لیکن اس دکانداری پر طلب و رسد کا اصول لاگو کرنا آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ میرے خیال میں میڈیا جس مارکیٹ کا غلام ہے اس میں رسد کے دم پر طلب پیدا کی جاتی ہے اور مارکیٹ نے میڈیا کو یہی ٹاسک دیا ہے کہ پراکٹ کی ”تشہیر“ سے طلب پیدا کرکے اس میں اضافہ کرے تاکہ رسد اور پروڈکشن میں اضافہ ہوسکے۔

اب اس طلب پیدا کرنے والے مارکیٹ کے غلام کو خود طلب و رسد کے اصول پر کاربند سمجھنا، سمجھ سے باہر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مضمون نگار مذہب کے تجارتی استعمال کا امکان پیش کرتے ہیں جس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مذہب صرف تجارت ہی ہے اس لیے ہم ان سے یہ سوال نہیں کرسکتے کہ طلب و رسد کے فلسفے میں مذہب طلب ہے یا رسد۔ البتہ ہم ان کی توجہ ان کے مضمون کے آخری حصے میں لکھے جملے کی طرف ضرور دلانا چاہیں گے کہ جس میں وہ کہتے ہیں کہ میڈیا اگر سنجیدہ پروگرام پیش کرنے کا ”طے“ کرلے تو ”حسب خواہش“ افراد بھی میسر آجائیں گے۔

یہ غور و فکر اسی صورت مفید ہوگا اگر وہ یہ بھی سوچیں کہ میڈیا، میڈیا پر مذہبی پروگرام، مذہب پر پروگرام، پروگراموں میں مذہب اور ان پروگراموں میں مولوی اور اداکار وغیرہ طلب کے خانے میں آئیں گے یا رسد کے۔ اور جب طلب و رسد میں سے کوئی ایک ”طے شدہ“ ہو تو پھر اس معاشی اصول کے لیے کچرادان کے سوا کوئی جگہ نہیں۔

مضمون میں سوالات اٹھا کر فاضل مصنف نے حل بھی پیش کیا ہے۔ محترم خورشید ندیم صاحب کا یہ ماننا ہے کہ میڈیا نے مذہب پر بات لازمی طور پر کرنی ہے۔ اس لیے مذہبی لوگوں کا میڈیا پر آنا ضروری ہے۔ اس لیے معزز مصنف نے یہ حل پیش کیا کہ میڈیا پر صرف ایسے مذہبی لوگ بلائے جائیں جو ”فسادی“ نہ ہوں۔ اس تجویز سے دومسئلے حل ہوگئے ؛ فسادیوں کا تعین میڈیا کرے گا اور فسادی لوگ صرف مذہبی لوگوں میں ہی پائے جاتے ہیں۔ فساد کی تفسیر و تشریح کرنے والوں کومیڈیا بتائے گا کہ فسادی کون ہوتے ہیں اور پھر یہ بتائیں گے کہ فساد کیا ہوتا ہے۔

میڈیا پر آکر مذہب اور مذہبی رہنماؤں کا یہی حشر ہوتا ہے۔ موصوف چونکہ ”مکمل ضابطہ حیات“ کا ایک خاص فہم رکھتے ہیں اس لیے ہمیں یقین ہے کہ اس مفہوم کے مطابق فساد کی تعریف ضابطہ حیات میں داخل کرنا خلاف ضابطہ ہے۔ فسادی اور مصلح کا تعین کرنے والے کون ہیں یہ میڈیا کو بھی خوب معلوم ہے۔ اس لیے وہ جان کی امان پاتے ہوئے پڑھائی اور بتائی گئی تعریفوں کو صبح و شام رٹا لگاتا رہتا ہے۔

قابل احترام خورشید ندیم صاحب نے مضمون کے آخر میں ناممکن الوقوع خواہش ظاہر کی ہے کہ میڈیا کی ضرورت اور مذہب کی سنجیدگی میں تطبیق و تواز ن ہوجائے۔ گویا ان کی خواہش ہے کہ سنجیدگی تفریح میں تبدیل ہوجائے اور جب ایسا ہوگیا تو سنجیدگی اور تفریح کا جھگڑا ہی ختم ہوجائے گا، یعنی کاروبار بھی خوب چمکے گا اور فساد کا اندیشہ بھی نہ رہے گا۔ اصل میں ان کی یہ خواہش مذہب کو سکرین کی ضرورت پر قربان کرنے کی تمنا ہے۔ اس معاملے میں انہیں اداکاروں کی نہیں بلکہ سنجیدہ لوگوں کی ضرورت ہے۔ اب فاضل مصنف کو کون بتائے کہ سنجیدگی کو تفریح کے روپ میں پیش کرنے والا اداکار ہی ہوتا ہے۔ سکرین پرسنجیدگی بھی اداکاری ہی ہوتی ہے۔

سکرین کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس لیے سنجیدہ علماء دین کو اداکاری کرنی پڑے گی یا اداکاروں کو مولوی کا کردار نبھانا ہوگا۔ یہ دونوں آپشن میڈیا کی ساخت اور خصلت کا بیان ہیں۔ اس میں علماء دین کے لیے سبق یہ ہے کہ میڈیا کی دوستی اچھی نہ دشمنی۔ لہذا ہم سنجیدہ حضرات سے یہی کہنا چاہتے ہیں کہ میڈیا پر آکر مذہب پر بات کرنے اور مذہب پیش کرنے سے اجتناب کریں۔ کیونکہ میڈیا ئی جوئے باز صرف جیتنے والے گھوڑے پر شرط لگاتے ہیں۔

کون سا گھوڑا جیتے گا یہی میڈیا کی خبر ہوتی ہے جسے نامور صحافی ارباب حل و عقد کی راہ داریوں سے حاصل کرتے ہیں۔ اور کس گھوڑے کو جتینا اور ہارنا ہے یہ فیصلہ کہیں اور ہوتا ہے۔ میڈیا تو بس اس ہار جیت کا کھیل دکھاتا ہے۔ اور یہ تو بس اس کھیل کو دکھانے کا پابند ہے۔ جس دن میڈیا حقیقی معنوں میں آزاد ہوا، اسی وقت ختم ہوجائے گا۔ ایسے عارضی اور بے ثبات، غیر سنجیدہ اور حکم کے غلام کے لیے مذہب کو تفریح اور علمائے مذہب کو اداکار بنانا دینی اور دنیاوی خسارے کے سوا کچھ نہیں۔

مذہب پر کون بات کرے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).