رمضان اور مخلوقِ خدا کا احساس


حال ہی میں ایک عزیز سے ملاقات ہوئی۔ موصوف کافی جلدی میں تھے۔ پوچھنے پر جواب دیا کہ ان کے گھر میں دعوتِ افطار ہے اور دعوت میں موصوف نے اپنے باس اور ان کی بیوی کو مدعو کیا ہوا تھا۔ جناب جو کہ خاصی جلدی میں تھے، یہ فرما کر رخصت ہونے لگے کہ ایک بڑے ہوٹل سے باس کے لئے افطاری لینے جا رہا ہوں، وقت پر نہ پہنچا تو کہیں ختم نہ ہو جائے۔

میں یہ سن کر کافی حیران ہوئی۔ ان کی باتیں کافی دیر تک میری سماعت میں گونجتی رہیں۔ کیا یہ واقعی سوچنے کی بات نہیں کہ ہمارے اردگرد جہاں بہت سے لوگوں کے پاس کھانے کے لئے دو وقت کی روٹی میسر نہیں وہاں لوگ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بجائے اس کے کہ غریب لوگوں کی ہر طرح سے امداد کریں، ایسے لوگوں کی دعوتیں کرنے میں مصروف ہیں جو خود صاحبِ استطاعت ہیں اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم ان کی دعوتیں صرف فائدہ حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں آخر کیوں؟ کیا انسانیت نام کی کوئی چیز دنیا میں باقی نہیں رہی؟

میری بات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہمیں خود اپنے اعمال پر بھی نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے دستر خواں جو کہ سحر اور افطار کے وقت مختلف طرح کے کھانوں سے سجے ہوتے ہیں کیا ہم ان کھانوں کا کچھ حصّہ ایسے لوگوں کو نہیں دے سکتے جو دن اور رات صرف اس لئے محنت کرتے ہیں تاکہ اپنے معصوم اور روتے بِلکتے بچوں کا پیٹ بھر سکیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایسے لوگ بھی بستے ہیں جو اپنی امیری کے نشے میں غریبوں سے بات کرنے میں بھی ہتک محسوس کرتے ہیں۔

میں یہ نہیں کہ رہی کہ لوگ غریبوں کو بھی دعوتوں یا افطار پر بلا ئیں یا ان کے لئے مختلف طرح کے پکوان پکائیں۔ میں صرف اتنا چاہ رہی ہوں کہ جہاں ہم ایسے لوگوں کو دعوتوں پر مدعو کرتے ہیں جن سے ہمیں فائدہ ہو یا ہماری نیک نامی ہو وہیں ہم اپنی کسی چھوٹی سی کوشش سے کسی کا صرف اتنا بھلا کر دیں کہ وہ صرف ایک وقت کا کھانا خود بھی کھا سکے اور اپنے بچوں کو بھی پیٹ بھر کر کِھلا سکے۔ اس لئے ہمیں بھی چاہیے کہ اد مبارک مہینے کی برکتوں اور رحمتوں سے فیض یاب ہوتے ہوئے نہ صف اپنا بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں کا بھی احساس کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).