گھر کبھی جنت نہیں بنتے کیونکہ عورت کا تو کوئی گھر ہوتا ہی نہیں


مجھے آج بھی یاد ہے، ابو کس طرح میرے نام کی تسبیح کیا کرتے تھے۔ گھر میں قدم رکھتے ہی میرا نام سنائی دینے لگتا تھا۔ جیسے کوئی چھوٹا بچا اپنی پسندیدہ چیز کی تلاش میں پاگلوں کی طرح ادھر اُدھر ہلا مچاتا پھرتا ہے۔ عید پر میرے لیے میری ہی پسند سے کپڑے لایا کرتے تھے، میں باقی بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی اور ابا کی بہت لاڈلی بھی کیونکہ ذرا حاموش طبیعت اور حساس دل کی تھی، بہن بھائی رشتہ دار سب ہمیشہ مذاق کرتے تھے میرا کیونکہ کھانے پینے کی خاصا شوقین تھی میں۔

ابا جی کو یہی تو بات پسند تھی میری وہ خود بھی اُتنا ہی شوق سے کھاتے تھے جتنا کہ میں۔ اماں سے بہت پیار تھا مجھے لیکن ڈر ہمیشہ اس پیار کو کہیں چھپا دیتا تھا۔ مار بہت کھاتی تھی نا ان سے اس لیے۔ جھولوں پہ شام تک جھولنا اور پھر گھر آ کر اماں سے ڈانٹ کھانا، ہفتہ اور اتوار کا دن تو جیسے عید ہوتی تھی ہماری، ابو کے ساتھ جناح باغ کی سیر پہ جانا اور بعد میں لکشمی چوک سے پائے کھانا۔ ابو ہمیشہ تعریف کرتے تھے، کہتے تھے میری بیٹی سے پیارا کوئی نہیں۔ بالکل پری جیسی اور اماں۔ اماں کہا کرتی تھیں میری بیٹی جس بھی گھر جائے گی اُسے جنت بنا دیگی۔

ابا، اماں۔ جھوٹ کہتے تھے آپ۔

ماں باب اپنی بیٹیوں کی ہر لحاظ سے تربییت کرتے ہیں، گھر گھرستی، چولا چوکا، سب کچھ سکھاتے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک اس سب کی جگہ بس یہ سکھا دیں کہ کل کو لاکھ کوششوں کے باوجود بھی اگر کوئی بس تمہیں تمہاری خامیاں بتاے تو خاموش رہنا، اگر کوئی تمہاری کوشش کو محض یہ کہ کر مٹی کر دے کہ وہ ان کے معیار کی نہیں تو خاموش رہنا، اگر کوئی تمہیں، تمہارے خواب کو، جُستجو کو، محبت، خُلوص کو اہمیت نا دے تو خاموش رہنا، خاموش رہنا، برداشت کرنا نہیں سکھاتے بیٹیوں کو ماں باپ۔

وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان کے بعد نا تو کوئی لاڈ اُٹھائے گا نا سہلائے گا۔ کوئی کچھ بتائے گا تو بس یہ کہ تم میں عیب بہت ہیں، یا پھر یہ کہ تمہیں کچھ سکھایا نہیں ماں باپ نے۔ ماں باپ جیسا کوئی نہیں ہوتا، کہیں نہیں ہوتا، ماں باپ کے لئے اولاد سے بہتر کوئی نہیں ہوتا اور ان کے چلے جانے کے بعد وہی اولاد کہیں کی نہیں رہتی۔

جو بیٹی اپنے باپ کی پری ہوا کرتی ہے، جس ماں کے لیے وہ گھر کی رونق ہوتی ہے وہی بیٹی ماں باپ کے جانے کے بعد کسی کے لیے بھی محض گھر میں رکھے کسی سامان کی طرح ایک چیز ہو جاتی ہے، اور ساری زندگی محرومییوں کی چھاوں میں بیٹھ جاتی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی دولت، کوئی بھی محبت پھر اس احساسِ محرومی کو ختم نہیں کر پاتا، ہاں البتہ بڑھاوا ضرور دیتا ہے۔

عجیب بات ہے کہ ماں باب ساری زندگی جس محبت اور اپنائیت سے پالتے ہیں بیٹیوں کو وہ چاہ کر بھی ایڈجسٹ نہیں کرپاتی معاشرے کی تلخیوں میں۔ اور دنیا عیب کی سوا کچھ نہیں دکھاتی۔
اماں۔ گھر کبھی جنت نہیں بنتے کیونکہ عورت کا تو کوئی گھر ہوتا ہی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).