NO FORTUNES TO TELL: حارث خلیق کی انگریزی شاعری کا نیا مجموعہ


وہ بالادست ریاست جس کی پیش گوئی پچھلی صدی میں جارج آر ویل نے کی تھی اب ہمارے سر پر مسلّط ہے اور یہ ریاستی جبر صرف پاکستان میں ہی نہیں بل کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں واضح ہے جہاں لوگوں پر مکمل قابو پانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان نامساعد حالات میں فن و ثقافت، شاعری اور موسیقی سب استبداد کی زد میں ہیں اور تنگ نظر قوم پرستی، جنگ جوئی اور تشدد کی بھرمار ہے۔ ایسے میں بہت کم ایسے لکھنے والے ہیں جو صلاحیت اور جرات کے ساتھ بالادست بیانیے کو للکار سکیں۔ حارث خلیق ایک ایسے ہی شاعراور دانش ور ہیں۔

حارث خلیق کے کلام کا کینوس بڑا وسیع ہے اور مختلف النوع بھی۔ ان کی نظر ہر پہلو پر رہتی ہے جس سے ان کا طرز اظہار متاثر کن بھی ہے اوردلکش بھی۔

حارث اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو جنرل ضیاءالحق کے دورمیں پروان چڑھی۔ اپنے لڑکپن میں انہوں نے پاکستان میں جمہوری نظام کا تختہ الٹتے دیکھا اور ایک منتخب وزیر اعظم کی پھانسی بھی۔اپنی نوجوانی میں حارث نے ملک میں لسانی اور فرقہ وارانہ آگ کے تھپیڑے محسوس کیے۔ ان کے والد خلیق ابراہیم خلیق ایک ترقی پسند دانش ور اوردستاویزی فلم ساز تھے جنہوں نے حارث میں سیکھنے کی لگن اور اظہارکی تمنا بیدار کی۔

حارث خلیق کا نیا انگریزی مجموعہ کلام No FORTUNES To TELL حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔ اس میں اپنے والد کے لیے تحریر کردہ ایک نظم میں حارث لکھتے ہیں۔

I BRING FOOD

OTHERS HOG

YOU PECK

A QUIET UNAGITATED BEING

A HORRID MAN

ON THE FILM SET

میں جب کھانا لے کر آیا

سب نے بھرے نوالے

آپ نے بھی اک لقمہ توڑا

خاموشی سے دیکھا

فلم سیٹ پر آپ ہیں گم سم

بیٹھے دیو سمان (آزاد ترجمہ ناظر محمود)

حارث خلیق کی والدہ حمرا خلیق خود ایک معروف مصنفہ ہیں اسی لیے حارث نے اپنے والدین سے ایک فطری تجسّس ورثے میں پایا ہے جس سے وہ دنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ان حالات و واقعات پر بھی نظر ڈالتے ہیں جو عام طورپر لوگ نظر انداز کر جاتے ہیں۔ ان ہی خصوصیات کی بدولت حارث خلیق 1990 کے عشرے میں ایک ابھرتے ہوئے شاعر کے طور پر سامنے آئے۔

ان کی اردو شاعری کے دو مجموعے ”آج جب ہوئی بارش“ 1991ءمیں اور ”سارے کام ضروری تھے“ 1997 میں شائع ہوئے اور قارئین اور ناقدین کی توجہ حاصل کی۔ لیکن 1990ءکے عشرے میں حارث خلیق کا سب سے عمدہ انگریزی کام ان کے مجموعے جس کا عنوان   IF WISHES WERE HORSES  تھا، 1996ء میں چھپا۔

گزشتہ پچیس سال میں حارث خلیق نہ صرف اردو بل کہ انگریزی شاعری میں بھی ایک توانا آواز بن کر ابھرے ہیں۔ ان کے اظہاریے، کالم اور مضامین نے انہیں حالاتِ حاضرہ پرنظر رکھنے اور تبصرہ کرنے والا ایک محترم نام بنادیا ہے۔ ان کی نثری تحریروں میں بھی تاریخی اور سیاسی شعور کا ایک شاعری انداز جھلکتا ہے۔

اس لحاظ سے NO FORTUNES TO TELL شاعری میں حالات حاضرہ کا اظہار ہے جو شاعر کے اطراف کے مشاہدوں پر مبنی ہے۔ مگر اس کتاب کی نظمیں صرف مرورِ زمانہ کا بیان نہیں ہیں۔ یہ لوگوں کے احساسات کا ایک جذباتی اظہار بھی ہیں۔ جو حالات سے متاثر ہیں۔

حارث خلیق کی نظمیں گردو پیش کے علاوہ بھی بہت کچھ اپنے اندر سمائی ہوئی ہیں۔ مثلاً ان کی رومانی نظمیں ان کے قلم کی روانی کا ثبوت ہیں MAKING LOVE جوآپ کے دل میں گھر کرجاتی ہیں۔ مثلاً ان کی نظم  تخلیے کے ان لمحات کا بیان ہے جب جذبات کی رو بہہ نکلتی ہے۔ ان کی بعض نظموں کے عنوان دورِ جدید کے ابلاغ سے لیے گئے ہیں۔ مثلاً ایک emailنظم کا عنوان ہے ای میل۔

YOU ARRIVE IN MY IN BOX

I CLICK

OPEN TO READ

LINE

WORD

DOT

CURVE, SLANT, INDENT

EMPTY SPACES

I LEARN YOU BY HEART

MEMORIZE THE TEXT

IMBIBE THE MEANING

آزاد ترجمہ

تم میرے ان بوکس میں آئیں

میں نے کلک دبائی

پڑھ ڈالی ہر سطر تمہاری

ہر لفظ پہ نظر جمائی

تیکھے ترچھے حروف کے پیچھے

خالی خالی پہنائی

دل میں تم کو سینت کے رکھا

ہر جملہ حِفظ کیا

معنی کو جذب کیا

(ترجمہ ناظر محمود)

حارث خلیق کی شاعری اس وقت بہت متاثر کرتی ہے جب وہ زندگی کے دردو الم پر اپنے قلم سے نقش ونگار بناتے ہیں۔ یعنی وہ صرف ہماری زندگیوں کے سماجی و سیاسی گورکھ دھندوں کو ہی نہیں دیکھتے بل کہ ان میں پوشیدہ اختلافات اور تنقیدی بصیرت کو بھی جانچتے ہیں اور یہی بات ان کی نظموں میں ہے۔

THE QUIET

IS DUE TO A CLOG

CLOG

CAUSED BY CLUTTER

THE CLUTTER OF LIFE

IS CLUTTER OF PAIN

SPREAD ALL OVER

SKULKING INSIDE PLUGGING

CREVICES, HOLES

CRAMMING SPACES

SEEN AND UNSEEN

گہری خاموشی

بند دریچوں سے ہے

اور دریچے ہیں بند

جیون کے کاٹھ کباڑ سے

ہر طرف پھیلے ہوئے

درد کے انبار سے

چپ چاپ ہوئے ہیں بند

ہر سوراخ اور روزن

دیکھے ان دیکھے

کونے کھدرے بھر جاتے ہیں

اور گہری خاموشی چھا جاتی ہے

(آزاد ترجمہ: ناظر محمود)

(THE SIX EMIRS) زیر تبصرہ کتاب میں ایک اور بڑی دل چسپ نظم ہے جس کا عنوان ہے ”چھ امیر گوکہ یہ خیال آسٹریا کے معروف  شاعراور ناول نگار رینے ماریا رلکے سے ماخوذ ہے۔ اس نظم میں پاکستان کی تاریخ کے چھ مرحلوں کوخوبصورتی سے قلم بند کیا گیا ہے۔ یہ مرحلے قیام پاکستان سے لے کر اکیسویں صدی تک کا احاطہ کرتے ہیں۔ نظم کے ہر حصے کا منفرد عنوان ہے

۔ بانی FOUNDER 1.

۔ غاصبUSURPER -2

۔ اوباشLECHER -3

۔( آزاد خیالMAVERICK -4

۔ متعصب BIGOT -5

 مست مگن  SMUG -6

USURPER اسی طرح چند صفحات میں حارث خلیق نے پاکستان کے حکم رانوں کی حماقتوں کا خلاصہ بیان کردیاہے۔ مثلاً نظم

غاصب کودیکھئے

EAGLES HOVER ABOVE

BEAKS LIKE SWORDS

TALONS OF STEEL

SCORPIONS, SNAKES

SWERVE, HISS ON THE GROUND

DRAGONS EXHALE FIRE

CLUTCH EVERY THING

GUARD ALL WEALTH

POWER AND PELF

عقاب منڈلاتے ہیں

تلوار جیسی چونچ لیے

آہنی پنجے تیز کیے

بچھو، سانپ اور حشرات

پھن پھیلائے، ڈنک نکالے

مڑتے، اڑتے،رینگتے جائیں

اژدھے آگ برسائیں

سب کچھ اپنی زد میں لائیں

دھن دولت پر پہرے دار

طاقت، قوت، اقتدار

(آزاد ترجمہ ناظر محمود)

 اسی طرح جب نظم LECHER (اوباش) پڑھتے ہیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان کے کس حکم ران کی بات ہورہی ہے۔ یہ دیکھیے

THE SHARP SCENT OF TREACHERY

EMITS OUT

OF EVERY PALACE WALL

SERVANTS

PACE UP AND DOWN

THE CORRIDORS

SILVER PLATTERS

OFFERING GUILE AND SHAM

THE EARLS, THE NOBLES

KISS THE PLATTERS IN AWE

THE EMIR

OF THE LAND OF THE PURE

RELISHES SLYNESS

دغا بازی کی تیز بساند

محل کی ہر دیوار سے پھوٹ رہی

غلام گردشوں میںہیں مصروف

خدام، تیز خرام

 لیے نقرئی تھال و مرتبان

نواب اور سلطان

چومتے ہیں مرتبان

اور امیر ارض پاک

کو لبھاتے ہیں

عیار و خوش اندام

مہمانان کرام

غالباً یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ جنہیں پاکستانی انگریزی شاعری کی پہلی نسل کہا جاتا ہے۔ مثلاً مکی قریشی، داﺅد کمال اور توفیق رفعت، ان کے بعد نئی نسل میں ایک مضبوط اور توانا آواز کی ضرورت تھی جسے حارث خلیق نے پر کیا ہے۔

حارث انسانی حقوق کے مجاہد بھی ہیں۔ اس لیے انہیں محروم طبقات اور نظر انداز کیے جانے والے بلکہ نشانہ بنائے جانے والے مذہبی و لسانی گروہوں سے گہری ہم دردی ہے۔ جن کے لیے وہ آواز بھی اٹھاتے ہیں۔ مثلاً آسیہ بی بی کے لیے حارث نے بھرپور نظم لکھی ہے۔ یاد رہے کہ آسیہ بی بی وہ مسیحی خاتون ہیں جن کا تعلق شیخوپورہ سے ہے اور جو دس برس بے گناہی کی سزا کاٹ کر حال ہی میں رہا ہوئی ہیں۔

حارث نے دہشت گردی کے شکار اس معاشرے کی عکاسی اپنی نظم ”گل شیر“ میں کی ہے۔ یہ نظم پڑھتے ہوئے آپ اپنے آنسو روک نہیں پائیں گے۔ اس نظم میں تیرہ سالہ گل شیر کا بیان ہے۔ جو دسمبر 2014ءکو پشاور میں ایک اسکول پر حملے میں شہید ہوا۔

NOW HE WILL NOT

WAKE HIS SISTER UP

NOW HE WILL NOT

HIDE HIS GRANDMA`S PEN

NOW HE WILL NOT

PESTER HIS MOM AGAIN

NOW HE WILL NOT

EYE HIS DADDY`S PURSE

FROM SCHOOL TODAY

HE CAME BACK IN A HEARSE

اب وہ اپنی بہن کو

نہیں جگائے گا

نہ ہی اپنی دادی کا

قلم چھپائے گا

اب وہ اپنی ماں کو

تنگ نہیں کرے گا

نہ ہی اپنے ابا کے پرس

کی تاک میں رہے گا

کیوں کہ آج وہ اپنے

اسکول سے خود نہیں آیا

بل کہ تابوت میں لایا گیا

حارث خلیق اپنے فن کو ریاستی نظریات کے تابع نہیں کرتے نہ ہی وہ مذہب کے نام پر ہونے والے تشدد پرخاموش رہتے ہیں۔ ان کی دیگر نظمیں مثلاً THE MAGICIAN AND THE BOY اور PALM READER: ALEPPO بچہ اورجادوگر“ اور حلب کا دست شناس“ وہ نظمیں ہیں جنہیں  نقادوں نے بہت سراہا ہے اس لیے ہم یہاں ان پر مزید گفتگو نہیں کر رہے۔ حارث خلیق میں ایک بڑے شاعر کی تمام لوازمات پوری طرح موجود ہیں اور زیر تبصرہ کتاب پاکستان کی انگریزی شاعری میں بلاشبہ ایک اہم اضافہ ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ حارث کی شاعری جلد بین الاقوامی طور پر تسلیم کی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).