کیا ہمارے روزے، روزے ہیں؟


“اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہوجاؤ۔” سورۃ البقرہ، آیت 183۔

قرآن کریم کی یہ آیت کب اتری، یہ تو عالمِ دین مجھ سے بہتر بیان کر سکتے ہیں مگر میں اتنا بتا سکتی ہوں کہ اس آیت کے بعد مسلم امہ پر روزے فرض کر دیے گئے تھے۔ روزے سے مراد صبح سحر سے لے کر سورج ڈوبنے تک کھانے پینے کے علاوہ کچھ مخصوص کاموں مثلاً جنسی تعلق قائم کرنا، جھوٹ بولنا، گالیاں دینا وغیرہ وغیرہ سے پرہیز کرنا ہے تاکہ تقویٰ اختیار کیا جا سکے۔ کچھ صورتوں میں روزہ چھوڑنے کی گنجائش بھی ہے۔

چودہ سو سال بعد ہم نے روزے ان پر بھی فرض کر دیے جن پر روزہ مختلف حالتوں کی وجہ سے فرض نہیں اور ان پر بھی جو ہمارے مذہب کے پیروکار ہی نہیں۔ اگر قیامت والے دن اس معاملے پر ہم سے باز پرس کی گئی تو ہم عامر لیاقت کے انداز میں کہیں گے ‘کیسا دیا پھر؟’۔

رمضان کے تو نہیں مگر احترامِ رمضان آرڈیننس کے ‘احترام’ میں ملک بھر میں سحری سے لے کر افطاری تک ایک کھوکھے سے لے کر بڑے بڑے ریستوران تک بند رہتے ہیں۔ بڑے بڑے پانچ ستارہ ہوٹلوں میں کوئی ایک آدھ ریستوران کھلا ہوتا ہے جہاں صرف ایک مخصوص طبقہ ہی کھانا کھا سکتا ہے۔ باقی مینیو کارڈ دیکھ کر ہی اپنی بھوک ختم ہوتی محسوس کرتے ہیں۔

بچے، بوڑھے، بیمار، مسافر، حیض کی حالت میں خواتین اور غیر مسلمان، صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر کچھ کھانا بھی چاہیں تو بیکری اشیاء کے علاوہ کچھ میسر ہی نہیں ہوتا۔ بیکری میں بھی موٹے موٹے الفاظ میں لکھا ہوتا ہے کہ یہاں کھانا پینا منع ہے۔ البتہ فوڈ پانڈا پر اکا دکا ریستوران محدود مینیو کے ساتھ فوڈ ڈیلیوری کر رہے ہوتے ہیں لیکن کتنے لوگ فوڈ پانڈا کا استعمال کرتے ہیں؟ اور یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ کے روزے کے احترام میں کوئی اپنی پسند کا کھانا بھی نہ کھا سکے؟

بقیہ ریستوران افطاری سے قبل کھلتے ہیں اور سحری کے بعد بند ہوتے ہیں۔ لاہور میں ایک اوسط درجے کے افطار ڈنر کا فی کس بِل 2000 روپے ہے۔ افطار ڈنر کی ایسی قیمتیں پڑھ کر میں اس غریب کے بارے میں سوچتی ہوں جس نے فیملی پلاننگ کو ہمیشہ حرام سمجھا اور اب اپنے آٹھ افراد کے خاندان کو رمضان میں باہر ڈنر پر بھی نہیں لے جا سکتا۔

پھل، سبزی، گوشت، مصالحے دگنی تگنی قیمتوں پر بِک رہے ہیں۔ عید تک یہی سلسلہ چلے گا، اس کے بعد قیمتیں تھوڑے عرصہ کے لیے کم ہوں گی اور عید الاضحیٰ کے قریب پھر سے بڑھنا شروع ہو جائیں گی۔ ایسا ہر سال ہی ہوتا ہے۔ اس سال امید تھی کہ ریاستِ مدینہ کا ڈھول بجانے والے عوام کو کچھ راحت دیں گے مگر جو وہ دے رہے ہیں اسے راحت ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔

ایک ماہ قبل ہمارے مسیحی بھائی بہن ایسٹر کے روزے رکھ رہے تھے۔ ان کے روزہ بھی ہمارے روزے سے میزان میں کم ہے۔ ہمارا روزہ اتنا نازک ہے کہ اگر اس کا پورا ملک احترام نہ کرے تو وہ ٹوٹ کر بکھر سکتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے مسیحی برادران کا ایمان ہماری نسبت اتنا مضبوط ہے کہ کسی کو کھاتے پیتے دیکھ کر خطرے میں نہیں پڑتا۔

گذشتہ برس میں نے ایامِ حیض کے دوران خواتین کو زبردستی رکھوائے جانے والے روزوں پر ایک مضمون لکھا تھا جس پر کافی تنقید کی گئی۔ اس سال یہ مضمون اقلیتی برادری کے لیے لکھ رہی ہوں اس امید کے ساتھ کہ اگلے برس ایسا کوئی مضمون نہیں لکھنا پڑے گا۔ گرچہ دل جانتا ہے کہ جب تک ہم ایسے مسلمانوں نے اسلام کو بچانے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے تب تک مظلوم طبقے کے لیے ہمیں آواز بلند کرتی رہنی پڑے گی۔

اگر ہم اپنے ایمان کو اتنا مضبوط کر لیں جو کسی کے ایک بوتل پانی، ایک سینڈوچ، ایک روٹی یا ایک سوال سے نہ ٹوٹے تو شائد ہم روزے رکھے بغیر بھی جنت کے اس دروازے سے گزر سکتے ہیں جو صرف روزہ داروں کے لیے بنایا گیا ہے۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ ہم سے پہلے ہمارے یہ سب ساتھی اس دروازے کے باہر موجود ہوں گے جنہیں ہم زبردستی روزے رکھوا رہے ہیں۔ اور جب ہماری باری آئے تو ہمیں یہ کہہ کر واپس لوٹا دیا جائے کہ تمہارے روزے، روزے کب تھے وہ تو ظلم کے پہاڑ تھے جو تم ان پر ڈھاتے رہو۔ اب بھاگ جائو یہاں سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).