کالی دولت کالے لوگ


کہا جاتا تھا کہ حکمران سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں اس سے مراد یہ لیا جاتا تھا کہ حکمرانوں کی رعایا میں سفید چمڑی والے بھی ہوتے ہیں اور سیاہ فام بھی سانس لے رہے ہوتے ہیں حکمرانوں کا حکم دونوں پر چلتا ہے البتہ کسی سلطنت میں سفید فام حکمرانوں کے چہیتے سمجھے جاتے ہیں اور کالوں کو آزادی کی تحریک چلانا پڑتی ہے اور کہیں پر کالے سلطنت میں قابل احترام ہوتے ہیں اور سفید چمڑی والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے برصغیر میں کم وپیش سو سال تک کالے اور نیم کالے سفیدی رنگ والوں سے نفرت کرتے رہے اور اس عظیم مقصد کے لئے کوئی ملنگی بن گیا اور کوئی دُلا بھٹی ہوگیا۔

اکیسویں صدی میں سیاہ و سفید کا پیمانہ اور مفہوم بدل کر رہ گیا ہے اب لوگ سفید کالر کرائم کے ذریعے کالی دولت اکٹھی کرتے ہیں اور پھر حکومتوں کی صف میں چھپے ہوئے ان کے مشیر معیشت کی بہتری کے نام پر ایک سرکاری ایمنسٹی سکیم کا اجراء کرواتے ہیں تاکہ سفید کالر کرائم کے ذریعے اکٹھی کی گئی کالی دولت کو سفیدی کروائی جاسکے۔

یہ کام پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی مدت اقتدار کے آخری سال میں کرکے کالی دولت والوں کے راستے آسان کردیئے تھے یہ بات بلا مبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ پیپلز پارٹی کا زرداری دور سفید کالر کرائم کی دنیا میں بسنے والوں کا سنہری دور تھا کیونکہ تقریباً چار سال تک حکومت کے یاروں نے کالی دولت دونوں ہاتھوں سے سمیٹی اور پھر معیشت کی بہتری کے نام پر اپنی سات نسلوں کی معیشت ہمیشہ کے لئے ”سفید“ کرلی۔

میثاق جمہوریت کے ”سنہری اصولوں“ کے عین مطابق مسلم لیگ (ن) نے بھی کالی دولت کو سفیدی کروانے کا کام اپنی مدت پوری کرنے سے ایک سال پہلے کیا اور یار دوستوں کو نواز دیا گیا۔ قانونی طور پر سفید کالر کرائم کے ذریعے ناجائز دولت اکٹھی کرنیوالوں کے منہ کالے کیے جانے چاہئیں تھے لیکن اس کالے دھندے میں ملوث حکمرانوں نے انہیں قانون کی چھتری فراہم کرکے ان کے آئندہ نسلوں کو بھی اس خوبصورت واردات کے اسرار و رموز سے آگاہی بخشی۔

پی ٹی آئی حکومت نے اپنے اقتدار کے پہلے سال ہی اس سکیم کا اعلان کردیا ہے۔ حکومت کے ہمدرد حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم نے ملکی معیشت کو بحال کرنے کے لئے پراپرٹی میں موجود ایک ہزار ارب روپے کے کالے دھن کو سفید کرنے کا موقع فراہم کیا ہے اور ان کی جاری کی گئی یہ سکیم اس لئے ”مقدس“ ہے کیونکہ عمران خان نے اپنے دوست احباب کو پہلے لوٹنے کا موقع فراہم نہیں کیا بلکہ انہوں نے سابق حکومتوں میں لوٹی گئی کالی رقم کو سفید کرنے کی کوشش کی ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ کالی دولت والے موجودہ حکومت کی اس سکیم پر اعتبار بہت مشکل سے کریں گے کیونکہ کرپشن کے خلاف وزیراعظم عمران خان کی آئے روز کی گئی تقریر نے کالا دھن رکھنے والوں کو بہت پریشان کررکھا ہے اور کالی دولت کے پجاریوں میں یہ خوف بھی موجود ہے کہ ”عمرانی حکومت“ ایک دفعہ ”سفیدی“ کا موقع دے کر پھر ہمیشہ کے لئے ان کی فہرستیں مرتب کرلے گی اور ایک سال بعد ان کے خلاف کسی اور قانون کے تحت کریک ڈاؤن شروع کردیا جائے گا۔

ماضی میں یہ سکیمیں اس لئے کامیاب رہیں کیونکہ ان کے اجراء سے پہلے کالے چوروں کو بھرپور وقت دیا گیا کہ وہ جائز اورناجائز ذرائع سے دولت بھی سمیٹ لیں اور اثاثے بھی بنالیں اور پھر سکیم شروع ہونے سے پہلے اخبارات میں خبریں لیک کرکے انہیں خبردار کردیا جاتا کہ لوٹی گئی دولت کو سفید کروانے کے لئے صف بندی کرلیں۔

موجودہ حکومت نے لوٹنے کا موقع ہی نہیں دیا اس لئے کالے چوروں کو ماضی میں لوٹی گئی دولت موجودہ حکومت کے پاس سفید کر انے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ ان کے لئے آبیل مجھے مار والی صورتحال ہوجائے گی لہذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس سکیم کے تحت کالی دولت سفید کروانے والے بہت کم لوگ سامنے آئینگے کیونکہ کالے چوروں کا موجودہ حکومت پر کسی بھی طرح کا اعتبار ہی نہیں ہے۔

پاکستان کی حکومتیں بھی عجیب کام کرتی ہیں ایک طرف لوٹی گئی دولت کو سفید کرنے کے لئے قانونی جواز فراہم کرتی ہیں اور دوسری طرف جن اداروں سے دولت لوٹی جاتی ہے انہیں سفید ہاتھی قرار دے دیتی ہیں مثال کے طور پر مسلسل لوٹ مار سے پی آئی اے اب طاقتور سفید ہاتھی ہے اور یہ ادارہ حکومت کے سالانہ اربوں روپے ہضم کرنے کی صلاحیت پیدا کرچکا ہے اسی طرح پاکستان سٹیل ملز بھی اب سفید ہاتھی ڈکلیئر ہوچکا ہے اور یہ ادارہ بھی خسارے کے لحاظ سے حکومت کی کمر توڑنے میں پیش پیش ہے

مزید برآں ریلوے، ایل ڈی اے، سی ڈی اے، کے ڈی اے وغیرہ سب سفید ہاتھی ہیں مگر حکومت نہ تو انہیں کالے ہاتھی بنانے کی سوچ رکھتی ہے اور نہ ہی انہیں ختم کرکے ان کے دانتوں کی قیمت وصول کرنا چاہتی ہے جس طرح پاکستان کے کئی ادارے سفید ہاتھی کا روپ دھار چکے ہیں بالکل اسی طرح بحیثیت قوم ہمارا خون سفید ہوچکا ہے موجودہ رمضان میں ذخیرہ اندوزوں کی کارروائیاں اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ ملاوٹ شدہ اشیاء کی فروخت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ مسلمانوں کا خون سفید ہوچکا ہے موجودہ حکومت نے سفید پوشوں کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے کیونکہ مہنگائی کے سونامی نے سفید پوش لوگوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ حکومت کے پاس فی الحال سفید پوشوں کی عزت بچانے کا بھی کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔

حکومت کو چاہیے تھا کہ ایسے ادارے جو سفید ہاتھی بن چکے ہیں انہیں بحال کرکے لوگوں کا روزگار بحال کرتی جس سے کافی زیادہ سفید پوشوں کی عزت نفس بحال ہوتی اسی طرح دولت کے حصول کے لئے لوگوں کے جو خون سفید ہوگئے ہیں ان کے لئے انقلابی معاشی اقدامات کرتی مگر موجودہ حکومت نے بھی سابقہ حکومتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کالی دولت والوں کا زیادہ خیال کیا ہے اور حکومت اب آئندہ تین ماہ کالی دولت کو سفیدی کرنے میں گزارے گی۔

قدرت کا بہت ہی حیرت انگیز نظام ہے آج جو لوگ کالی دولت سفید ہونے کا جشن منائیں گے وہی کل سفید لباس ( کفن ) پہن کر اس کا حساب کتاب دے رہیں ہوں گے اور پھر وہاں ان کے سامنے ان کا سارا سیاہ سفید رکھ دیا جائے گا اور اس ایمنسٹی سکیم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ رمضان المبارک میں دی گئی ہے بالکل اسی طرح جس طرح اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں اپنے بندوں کو اپنے کالے کرتوتوں سے تائب ہونے کا موقع دے رکھا ہے۔ ایمنسٹی سکیم اور رمضان المبارک قسمت والوں کو ہی ملتے ہیں۔ ایمنسٹی سکیم اللہ کے بندوں کی بندوں کے لئے ہے اور رمضان المبارک خالصتاً پرودگار کی طرف سے اس کے بندوں کے لئے تحفہ ہے

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat