احتجاجی تحریک: ٹھیک ہے مگر حاصل کیا کرنا ہے؟


خبر ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے بھی پیپلز پارٹی کی طرح یہ فیصلہ کیا ہے کہ عید الفطر کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان پہلے ہی اس قسم کی تحریک کے لئے پر تولے ہوئے ہیں اور گزشتہ چند ماہ کے دوران نواز شریف اور آصف زرداری دونوں کو ایک کمزور حکومت کے خلاف عوامی تحریک کے ذریعے چلتا کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

ابھی یہ تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں کس قسم کی تحریک چلانے کی منصوبہ بندی کریں گی۔ یا یہ کہ واقعی عوام کے بڑے اجتماع کو تسلسل سے سڑکوں پر لانے کا فیصلہ کیا جائے گا یا علامتی احتجاج کے ذریعے حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے گا اور مہنگائی اور معاشی بے یقینی کی وجہ سے عوام میں پیدا ہونے والے غم و غصہ کو مہمیز دی جائے گی۔ مسلم لیگ نے ابھی تک اپنی حکمت عملی کی صراحت نہیں کی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری گزشتہ دنوں عدالت میں ایک پیشی کے موقع میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے عید کے بعد تحریک چلانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) نے اپنے قائد نواز شریف کی عبوری ضمانت کے خاتمہ پر کوٹ لکھپت جیل واپسی کے بعد پارٹی کی تنظیم نو کی ہے اور یہ تاثر عام کیا گیا ہے کہ پارٹی اب شہباز شریف سے منسوب مصالحانہ حکمت عملی کی بجائے نواز شریف کی جارحانہ سیاسی حکمت عملی  پر گامزن ہونے کے لئے تیار ہے۔ اس کا ایک اشارہ مریم نواز کو پارٹی کا نائب صدر بنا کر بھی دیا گیا ہے۔

ان خبروں اور اشاروں کے باوجود یہ بات ہنوز بحث طلب ہے کہ کیا ملک موجودہ حالات میں ایک نئی احتجاجی تحریک کا متحمل ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اپوزیشن لیڈروں کی ہر طرح ہتک کرنے کے علاوہ بار بار یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ دھرنا دیں، کنٹینر ان کی حکومت فراہم کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ وضاحت بھی کرتے رہے ہیں کہ اپوزیشن میں کسی قسم کا احتجاج کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ گویا وہ اپوزیشن کو احتجاج پر اکسانے کی کوشش کرکے اپنی مقبولیت اور اپنی حکومت کی سیاسی قوت کا اظہار کرنا ضروری سمجھتے رہے ہیں۔

تاہم 9 ماہ کی مختصر مدت میں ہی تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی ناقص حکمت عملی اور معاشی بدانتظامی کی وجہ سے ملک کے اکثر لوگوں کو مایوس کیا ہے۔ کوئی بھی عمران خان یا ان کی ٹیم سے کسی معجزے کی توقع نہیں کر رہا تھا لیکن یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ بصد کوشش اقتدار میں آنے کے بعد ٹھوس معاشی پروگرام اور انتظامی ڈھانچے میں مثبت تبدیلیوں کا آغاز کریں گے۔ یہ امیدیں بوجوہ دم توڑ چکی ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کے مختصر دورانیہ میں معیشت مسلسل انحطاط کا شکار ہوئی ہے۔ سرمایہ کاری میں کمی اور بازار ٹھنڈے ہونے کی وجہ سے بیروز گاری اور قیمتوں میں اضافہ ہؤا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت محاصل وصول کرنے کے اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے بعد اب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہو رہی ہے اور بجلی، گیس و تیل کی مصنوعات پر محاصل میں اضافہ یا سبسڈی میں کمی کی جائے گی۔

ان فیصلوں کا باالواسطہ اثر عام آدمی کی جیب پر ہی پڑے گا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بنیادی ضرورت کی اشیا اور سہولتوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کی وجہ سے عوام کی مایوسی اب غم و غصہ میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ملک کی سیاسی پارٹیاں بھی اسی صورت حال کو کسی عوامی سیاسی تحریک میں تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کر رہی ہیں۔ یعنی اس وقت حکومت وہ سارے حالات پیدا کر چکی ہے جو اپوزیشن کے ہاتھ میں حکومت کے خلاف خطرناک ہتھیار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب گرم لوہے پر چوٹ لگانے کی دیر ہے۔

تاہم پاکستان کے سیاسی، معاشی اور انتظامی حالات کی روشنی میں عوامی تحریک کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنے کی ضرورت ہوگی۔ کسی بھی احتجاج کا مقصد صرف تحریک انصاف کو اقتدار سے محروم کرنا نہیں ہونا چاہئے۔ یہ کام تو سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے معمولی اکثریت کی بنیاد پر قائم پنجاب اور مرکز کی حکومتوں کو گرا کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ عوامی احتجاج شروع کرنے سے پہلے سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کو واضح اہداف کا تعین کرنا چاہئے۔ اگر یہ اہداف متعین کئے بغیر تحریک شروع کی گئی تو اس سے سماجی انتشار، معاشی بحران اور سیاسی بے یقینی میں اضافہ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکے گا۔

سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تحریک انصاف کی بجائے اگر کوئی دوسری پارٹی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے تو کیا وہ عوام کو ان مالی مشکلات سے فوری طور پر نجات دلا سکتی ہے جن کے خلاف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جا رہی ہے۔ کیا کوئی نئی حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کو ماننے سے انکار کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔ کیا یہ پارٹیاں ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے ٹھوس فیصلے کرسکیں گی جو اس وقت حکومت کا سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے سابقہ دونوں ادوار میں بھی یہی سب سے بڑا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ معاشی بد انتظامی اور اس حوالے سے عوام کی مشکلات کو نعرہ بنانے سے پہلے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملک کو اس وقت جن مالی مسائل کا سامنا ہے ان کی کچھ وجوہ دوسری دونوں بڑی پارٹیوں کے ادوار کی دین ہیں۔ ملک کی کوئی بھی حکومت اخراجات میں کمی اور آمدنی میں اضافہ کا مناسب اہتمام نہیں کرسکی ۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے  


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali