چھوٹی بات کا بڑا تماشا


 دیوداس فلم میں شاہ رخ خان کی بھابھی مطلوبہ کنگن نہ ملنے پر اس سے ناراض ہو جاتی ہے اور شاہ رخ خان اپنی بھابھی کو مزاح کے سے انداز میں کہتا ہے کہ ”بھابھی آپ تو چھوٹی بات کر بڑا تماشا بنا رہی ہیں“ دوستو! ہمارے گھروں میں بھی اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے تماشے ہو جاتے ہیں ان میں 80 % تماشے بچوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ مسئلہ پھر وہی ”جوائینٹ فیملی سسٹم“ خواتین و حضرات! میری پہلی بات تو آپ اپنے پلے سے باندھ لیں کہ جتنا پیار ماں باپ ”بقلم خود“ اپنی اولاد سے کرتے ہیں دوسرا کوئی کر ہی نہیں سکتا یہ فطری اور بشری تقاضا ہی نہیں ہے۔

کہ کسی تھرڈ پرسن کی محبت ماں باپ سے بڑھ جائے آپ اپنے بچے کی الٹیاں تک اپنے دامن سے صاف کر دیتے ہیں۔ اور اگر یہی الٹی کوئی اور بچہ آپ کے دامن پر کر دے تو آپ اپنا ناک ساتویں آسمان سے جا لگائیں گے۔ اور اوں۔ ہوں۔ اوں ہوں کر کے اپنی قمیض اتار پھینگیں گے۔ گویا الٹی نہ ہوئی تیزاب ہو گیا۔ اور آپ کی آنکھیں حقارت کی تجارت الگ سے کر رہی ہوں گی۔ کہ جیسے یہ کوئی انہونی بات ہو گئی ہو۔ بات وہی ہے۔ اللہ نے ”ہمارے لہو“ میں مقناطیسی کشش رکھ چھوڑی ہے۔

بڑا یونیک سا مسئلہ ہے۔ اور اسی وجہ سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ کہ آپ آپنے لہو جتنی محبت، کیئر حتی کہ لہجہ تک دوسروں سے ایکسپیکٹ کر تے ہیں۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ہو ہی نہیں سکتا۔ میرے نزدیک ہونا بھی نہیں چاھیئے۔ اس لئے کہ ہر رشتے کی ایک خاص لیمیٹیشن ہے اگر آپ ایک حد سے زیادہ اس پر جان چھڑکیں گے۔ تو معاشرہ اپنے کان کھڑے کر لے گا۔ کہ اتنا پیار کیوں اور کس لئے؟ ایک بات اور بھی ہے جو زور آپ کا اپنے بچوں پر چلتا ہے وہ دوسرے کے بچوں پر چل ہی نہیں سکتا۔

آپ کو اپنی زبان تول کر کھولنا پڑے گی اپ اپنے بچے کی طرح گھر کے کسی دوسرے بچے کو بلا کر یاجھڑک کر دکھائیں۔ اپنا زور آزما کر دکھائیں۔ آپ کے ہاتھ توڑ دیے جائیں گے آپ کی زبان کھینچ لی جائے گی۔ اب ایسا بھی نہیں کہ آپ صرف اپنے ہی بچے کی لولو پوپو کرتے ہیں۔ دوسرا بچہ گرا پڑا ہے اور اپ کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تو یہ بھی ایک پرلے ٱدرجے کی سفاکی ہے۔ آپ کو بہر حال میانہ روی اختیار کرنا پڑے گی۔ لیکن اگر آپ کہیں کہ کوئی آپ کے لئے اپنی عادت بدل لے۔

جبلت چینچ کر لے۔ تو یہ نہیں ہو گا۔ اخلاقیات کے رول ماڈل نبی رحمت ص کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ”احد کا پہاڑ اپنی جگہ سے سرک سکتا ہے۔ مگر عادتیں نہیں بدلا کرتیں“ اچھا جی اب آتے ہیں دوسری بات کی طرف دوسری بات میاں اور بیوں کی ہے۔ جہاں تک میرا تجربہ ہے ہمارے معاشرے میں گھر بسانے اور سنبھالنے کی ساری ذمہ داری عورت پر ہی ہوتی ہے۔ وہ ”چھوٹی بات کا بڑا تماشا“ کر کے اپنا گھر اجاڑ بھی سکتی ہے۔ اور بڑی بات کو چھوٹا سمجھ کر اپنا گھر سنوار بھی سکتی ہے۔

ایشیائی ماؤں کا بچوں کے ساتھ تقریبا دس سال کا ایک ٹف پیریڈ ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر سرداری ہی سرداری ان کا مقدر ہوتی ہے۔ بھئی پاوں میں جنت ایسے ہی نہیں رکھ چھوڑی اللہ نے کچھ نہ کچھ تو آپ کو ایکسٹرا کرنا پڑے گا نا۔ جو ماں برداشت کر گئی وہ سمجھو تر گئی۔ یورپ جہاں عورت کو مکمل آزادی ہے وہاں کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ ولائتی تو خیر ولائتی ہیں۔ یہ ہماری دیسی لبرلز بھی ایک ایک بچہ سر پر اٹھائے موٹا سا چشمہ ناک پہ دھرے اور لیدر کا ہینڈ بیگ بغل میں دبائے ساری عمر تنہا گزار دیتی ہیں۔

اور مزے کی بات ہے اس پر انہیں فخر ہوتا ہے۔ جی ہاں۔ برابری کی نفرت پر فخر! یہ وہی طبقہ ہے جو ذرا سا اپنی انا اور گھٹیا اکڑ پر کمپرومائیز نہیں کرتا۔ اور ساری عمر غیروں کے رحم و کرم پر ایک چھوٹے سے فلیٹ میں گل سڑ جاتا ہے۔ پاکستان کی نوکری پیشہ کریم اٹھا لیں جس کی جتنی بڑی تنخواہ ہو گی وہ اتنی ہی زیادہ تنہا ہو گی۔ اور جس کی جتنی بڑی تعیلم ہو گی وہ اتنی ہی زیادہ منہ پھٹ اور ٹینشن زدہ ہو گی۔ یہ بات مردوں کے لیے بھی ہے اور عورتوں کے لئے بھی کہ ذرا سا جھک جانا بلندیاں عطا کرتا ہے بات سے بات نکالتے جانا۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے آگ سے اگ جلاتے جانا۔ کبھی کبھی ایک طرفہ خاموشی بڑے طوفان کو روک دیتی ہے۔ میں آپ کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔ یہ میاں بیوی کا مکالمہ ہے فرق آپ نے خود تلاشنا ہے ”میری شرٹ استری نہیں کی تم نے؟ “ ”وقت ہی نہیں ملا۔ لائیں، اب کر دیتی ہوں“ ”وقت کیوں نہیں ملتا؟ تم لوگوں کا گھر پر سارا دن کام ہی کیا ہوتا ہے بھلا؟ ٹی وی دیکھو، فیس بک پر لگے رہو، فون پر سہیلیوں کے ساتھ گپیں لگاؤ، اور بس!

”“ تو آپ کون سا ہل چلا کر آتے ہیں؟ صبح جا کر آفس میں بیٹھے رہو، شام کو آ کر گھر۔ کام تو سارا ہم کرتے ہیں۔ گھر سنبھالو، بچے سنبھالو، دن کا پتہ چلتا ہے نہ رات کا۔ ”۔ میری شرٹ استری نہیں کی تم ٱنے؟ “ ”وقت ہی نہیں ملا۔ لائیں، اب کر دیتی ہوں“ ”آرام کر لو اب۔ گھر سنبھالتی ہو، بچوں کے سب کام، انہیں ہوم ورک کروانا، گھر والوں کا خیال رکھنا۔ تھک جاتی ہو۔ میں خود استری کر لیتا ہوں“ ”آپ بھی تو صبح سے کام پر جاتے ہیں، ہمارے لیے تھکتے ہیں، اپنی شرٹس کا رنگ خراب ہو گیا ہے لیکن سب کچھ ہم پر خرچ کر دیتے ہیں، تپتی دھوپ ہو یا برستی بارش، صبح کے گئے شام کو واپس آتے ہیں۔ رہنے دیں، میں آپ کو فارغ ہوتے ہی استری کر دیتی ہوں۔ “۔ ۔ بس اتنا سا فرق ہے! ایک طرف صرف اپنے حقوق کی بات ہے، دوسری طرف اپنے علاوہ دوسرے کا خیال بھی۔ تھوڑا سا احساس، چند میٹھے بول، اور زندگی آسان سے آسان تر ”۔ صدق اللہ العظیم

وسیم رضا، سعودی عرب
Latest posts by وسیم رضا، سعودی عرب (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).