مرنے والا انسان اور زندہ آدمی


\"mehmudulگارسیا مارکیز کے ناول ’’ایک پیش گفتہ موت کی روداد ‘‘ میں ایک کردار کہتا ہے:

’’ آدمی کو ہمیشہ مرنے والوں کا ساتھ دینا چاہیے ‘‘

ہمارے یہاں مارکیزکے اس کہے سے بالکل الٹ معاملہ ہے ۔ سب کی ہمدردیاں لگتا ہے قاتلوں سے ہیں ، یا پھر ان سے جن کی پالیسیوں اور غفلتوں سے لوگ مرتے ہیں ۔ مظلوموں کا بہتا خون روکنا ہمارے بس میں نہیں ، لیکن ہم اپنی ہمدردی تو صرف اور صرف ان سے مخصوص کرسکتے ہیں۔ قاتلوں کے حامیوں سے کچھ نہیں کہنا کہ وہ تو خود درندے ہیں۔رہنما بیان جاری کرتے ہیں کہ دہشت گردی سے ہمارا عزم کمزور نہیں ہوگا۔ پوچھنا چاہیے :جناب ! آپ کا کوئی عزم ہے؟، کوئی بے کل ہوکر سوال اٹھا دے تو اس کی حب الوطنی پر وہ لوگ سوال اٹھاتے ہیں، جن کے بارے میں لکھا گیا ہے:

patriotism is the last refuge of a scoundrel

(دنیا بھر کے لفنگے، بداطوار اور بدقماش حب وطن کی کچھار میں پناہ لیتے ہیں)

سرکاری اور غیرسرکاری ترجمانوں کا تو ذکر ہی کیا کہ انھیں انسانی جان کی حرمت کا کیا علم ؟ وہ بیچارے تو نوکری کرتے ہیں۔\"fodder\"

کامیو نے ’’طاعون ‘‘میں لکھا ہے ’’اس دنیا میں وبائیں ہیں اور وباؤں کا شکار ہونے والے ہیں ۔ اور جس حد تک ممکن ہو آدمی کو وبا کا ساتھ دینے سے انکار کردینا چاہیے۔‘‘

یہ دہشت گردی بھی تو ایک وبا ہے ، آخر ہم اس کا ساتھ دینے سے کاہے کو انکار نہیں کرتے۔

اپندر ناتھ اشک کی تقسیم کے بارے میں کہانی ہے ’’چارہ کاٹنے کی مشین ‘‘ اس کے آخرمیں ایک دیہاتی ضرب المثل انھوں نے نقل کی ہے جو ہم جیسے بے حس لوگوں ہی کے بارے میں ہے :

’’احساس سے عاری انسان اور چارہ کاٹنے کی مشین میں آخر کیا فرق ہے۔ ‘‘

ایک فرق تو بہر حال ہے ، چارہ کاٹنے کی مشین بیان نہیں دیتی، کالم نہیں لکھتی اور ٹویٹ نہیں کرتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments