جمیل نقش: عورت، پرندے، گھوڑے اور حروف


’دوبارہ بھی آئیں‘ کہاں، کب، کیسے؟ یہ سارے سوال میں جمیل نقش سے پوچھنا چاہتا تھا مگر اس کا موقع ہی نہ ملا کیونکہ 16 مئی کو مجھے معلوم ہوا کہ جمیل نقش اس حقیقت سے کسی اور جانب جا چکے ہیں۔

ایک آرٹسٹ کی وفات اس کی زندگی کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہوتا ہے کیونکہ اس کا کام زندہ رہتا ہے (اگر وہ زندہ رہنے والا ہو)۔

اس لحاظ سے جمیل نقش کی زندگی ابھی بھی جاری ہے۔ ان کے کام کا تذکرہ الفاظ میں کرنا مشکل ہے کیونکہ اس کا ایک نمایاں پہلو اس کا ہمارے احساس سے تعلق ہے۔

مگر الفاظ جمیل نقش کے لیے بہت اہم رہے۔ ادبی رسالہ ’سیپ‘ اور کتابوں کے سر ورق خاص کر عبید اللہ علیم کی شاعری کے مجموعے اور ادب کے بارے میں ایک پروفیشنل نالج جو کہ سننے والے کو مبہوت کر دیتا۔

مجھے یاد ہے کہ میری آخری ملاقات میں جمیل نقش نے ادب، شاعری، مصوری کے بارے میں جو کہا وہ اتنا ہی اثر انگیز تھا جتنا کہ ان کی مصوری۔

اگر ہم جمیل نقش کی زندگی اورآرٹ کو ایک نظر سے دیکھیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ان میں کچھ زیادہ فرق نہیں تھا۔ جمیل نے اپنی زندگی میں جن موضوعات کا چناؤ کیا ان کی اہمیت کئی لحاظ سے ہے۔

ایک نمایاں موضوع عورت اور کبوتر ہے، کپڑوں کے بغیر عورت اور محو پرواز پرندے۔

یہ تصویر دیکھتے ہوئے ایک ناظر محسوس کر سکتا ہے کہ مسافر نے کس محبت سے ان کو پینٹ کیا۔

تصاویر نہ صرف اپنے موضوع کے لیے بلکہ بنانے کے انداز کی وجہ سے جمیل نقش کو لافانی بنا دیتی ہیں۔ جو مصور ان کا کام دیکھتے ہیں وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پینٹ کی سطح اور تہیت ایک بصری خوشی مہیا کرتی ہیں۔

یہ خوبی بظاہر ایک معمولی پہلو لگتا ہے مگر بہت کم آرٹسٹ یہ ہنر لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ جس طرح کہ اچھی آواز قدرت کی دین ہے اسی طرح رنگوں کو برتنے کا سلیقہ بھی قدرت کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔

مگر ایک آرٹسٹ کا کام صرف فنی پہلو سے ہی نہیں دیکھا جا سکتا خاص کر جمیل نقش کا۔ ان کے موضوعات بادی النظر میں محض عورت، پرندے، گھوڑے اور حروف ہیں لیکن ان کا ایک سیاسی منظرنامہ بھی ہے۔

نثر نگار آندرے ژید نے آرٹسٹ کی تعریف کی ہے، اس شخص کے طور پر جو بہاؤ کی الٹی سمت تیرتا ہو۔

ایک آرٹسٹ اپنی فطرت میں سچائی کا متلاشی ہوتا ہے اور اس تلاش میں موجود منظر نامے کو بدلنے کا متمنی۔ اس کا کام ایک طرح سے مروجہ اقدار سے روگردانی یا بغاوت ہے۔

جمیل نقش کی وفات کے بعد بغاوت کا لفظ ان کے کام سے جوڑنا عجیب محسوس ہوتا ہے مگر ان کا فیصلہ اور ایک شعوری فیصلہ کہ وہ عورتوں کو لباس کے بغیر بنائیں گے، اس حالت میں جس میں ان کو پیدا کیا گیا، ایک ایسے معاشرے میں جہاں ضیا الحق کی موت کے بعد بھی چادر اور چار دیواری کی اصطلاحات آرٹسٹوں کے سر پر منڈلاتی ہوں، جمیل نقش کا برہنہ عورتوں کو پینٹ کرنا ایک ذاتی توعیت کا فیصلہ نہیں۔

ایک مصور جو پاکستان میں رہتا ہو، یہاں پر نمائش بھی کرتا ہو، اس کے لیے خاتون کی عریاں تصاویر بنانا ایک ذہنی اور جسمانی خواہش نہیں بلکہ ایک طرح سے ریاستی اور معاشرتی جبر کے خلاف ایک آرٹسٹ کی آواز ہے۔

ایک آرٹسٹ کی آزادی کی خواہش جو کہ نقش کے کام میں نظر آتی ہے۔

یونانی اساطیر میں ایک بادشاہ ’میڈاس‘ ہے جو کہ ہر چیز کو چھونے سے سونا بنا دیتا تھا۔ جمیل نقش ہمارے عہد کے’میڈاس‘ تھے کیونکہ وہ جس منظر، جس جسم، جس پرندے، جس لفظ کو اپنے برش سے چھو لیتے تھے وہ اس کو سونے میں ڈھال لیتے تھے۔

سونے کی کئی قسمیں ہیں مگر ان میں سے سب سے بہتر آرٹ ہے کیونکہ یہ مادی منفعت کے بجائے انسانی مقصدیت کے بارے میں ہے۔ جمیل نقش کی پینٹنگ میں عورتیں، مورتیں، پرندے، جانور ایک ایسی دنیا میں زندہ ہیں جو کہ ان کو ماضی میں مقید کرنے کی بجائے انھیں حال اور مستقبل میں تصور کرتی ہیں کیونکہ موضوعات جیسا کہ کپڑوں کے بغیر عورت، کبوتر، گھوڑے اور الفاظ کا مجوعہ ماضی، حال اور مستقبل کی بندشوں سے آزاد ہے۔

جس طرح وہ وقت کی قید سے آزاد ہیں اسی طرح وہ جگہ کی حدود سے ماورا ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جمیل نقش کراچی میں پینٹ کریں یا لندن میں، کیونکہ وہ ایک لحاظ سے اپنے آپ پینٹ کرتا رہا۔

اس کی پینٹنگ کی خوبصورتی ان کے باطن کی خوبصورتی کی عکاس ہے۔ ان کے موضوعات بھی مصور کی غمازی کرتے ہیں۔

اگر ہم جمیل نقش کی زندگی اور آرٹ کو دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے زندگی اور آرٹ میں کوئی فرق نہیں تھا، وہ آرٹ کے لیے جیے۔

جمیل نقش اس کہانی کے کردار، ہاتھی، کی طرح ہیں جس کو مختلف لوگ کھوجنے اور جاننے اور بیان کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

مگر میرے خیال میں جمیل نقش ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ سیاسی طور پر نمایاں رہے کیونکہ ان کے موضوعات ایک نئی سیاسی اور سماجی زندگی کے خدوخال متعین کرتے ہیں۔

آزادی اور آزادی اظہار کی بندشوں کو خاطر میں نہ لانے کے، اور اپنے آپ سے سچ بولنے کی ہمت رکھنے کی۔

اس انسان کے لیے، جس کے لیے صرف ایک کینوس، ایک گلاس، رنگ اور برش زندگی گزارنے کے لئے کافی تھے، جس کے سہارے اس نے اپنی زندگی بسر کی۔

یہ زندگی ایک راہ دکھاتی ہے،آرٹسٹوں کے لیے اور کسی بھی سوچنے سمجھنے والے انسان کے لیے کہ اپنی متعین کردہ راہ اختیار کرنی چاہیے۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کسی کو پسند ہو یا نا پسند۔۔۔ اپنی خواہش سے زندگی بسر کرنا ہی ابدی زندگی ہے۔

اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ 60 سال پینٹ کرنے کے بعد 16 مئی 2019 کو لندن کے سینٹ میری ہسپتال میں آپ اس دنیا سے چلے جائیں کیونکہ دنیا نے آپ کو الوداع نہیں کہا۔

جس طرح جمیل نقش ہم میں ابھی موجود ہیں، ہر اس گھر میں جہاں ان کی تصویر ہے اور ہر اس ذہن میں جس میں ان کا تصور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp