نواز شریف نے قرضہ کیوں لیا؟


‏ٹھنڈے دماغ اور حوصلے کے ساتھ پڑھیں۔ بغض اور کینہ کی عینک اتار کر۔ نواز شریف نے قرض کیوں لیا؟ 5 جون 2013 کو جب نواز شریف نے وزیر اعظم کا حلف اٹھایا، تب: جی ڈی پی: 3.7 تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر: 6 ارب ڈالر تھے۔ بیرونی قرض: 60 ارب ڈالر تھا۔ ‏سٹاک ایکسچینج: 21823 پوائنٹس پہ تھی۔ ڈالر: 99.89 روپے کا تھا۔ اور 31 مئی 2018 کو جب اقتدار چھوڑا، تب: جی ڈی پی: 5.8 تھی۔

زرمبادلہ کے ذخائر: 16 ارب 40 کروڑ تھے۔ بیرونی قرض: 91 ارب ڈالر سے متجاوز تھا۔ اسٹاک ایکسچینج: 41 ہزار سے متجاوز پوائنٹس پر تھی۔ ڈالر: 106 روپے کا تھا۔ ‏سوال یہ ہے کہ بڑھا کیا صرف ڈالر اور قرض؟ GDP میں کوئی اضافہ نہیں ہوا؟ زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب نہیں بڑھے؟ اسٹاک ایکسچینج نے بلندیوں کے ریکارڈ نہیں توڑے؟ اور قرض بڑھا بھی تو کتنا؟ 31 ارب ڈالر؟ نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ‏سب سے پہلے 2013 سے 2018 تک لیے گئے ان 31 ارب ڈالر میں سے وہ 10 ارب ڈالر تو نکالیں جو زرمبادلہ کے ذخائر میں انہی پانچ سالوں میں بڑھے۔

باقی بچے 21 ارب ڈالر؟ یہ تھا وہ قرض جو گزشتہ پانچ سالوں میں لیا گیا۔ اور یہ 21 ارب ڈالر لیا کیوں گیا، گننا شروع کیجیے : ‏توانائی منصوبے : نندی پور، قائد اعظم سولر پارک، کاسا، بلوکی گیس پاور پلانٹ، کچھی کینال، نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ، گولن گول ہائیڈرو پراجیکٹ، داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، ساہیوال کول پاور پلانٹ، تھر کول پاور پلانٹ، گلپور پن بجلی منصوبہ، حویلی بہادر شاہ بجلی منصوبہ، بھکی پاور پلانٹ، ‏اپالو سولر، بیسٹ گرین سولر پاور پراجیکٹ، کریسٹ انرجی سولر پاور پراجیکٹ، میٹرو ونڈ پاور پراجیکٹ، یونس ونڈ پاور پراجیکٹ، ٹپال ونڈ پاور پراجیکٹ، ماسٹر ونڈ پاور پراجیکٹ، گل احمد ونڈ پاور پراجیکٹ، تنیگا ونڈ پاور پراجیکٹ، فاطمہ انرجی بیگاس پاور پراجیکٹ، حمزہ شوگر پاور پراجیکٹ، ‏سچل پاور پراجیکٹ، داؤد ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، گلف پاور پراجیکٹ، ریشماں پاور پراجیکٹ، پتران ہائیڈل پاور پراجیکٹ، یونائیٹڈ انرجی پاور پراجیکٹ، پورٹ قاسم پاور پلانٹ، تربیلا IV توسیعی منصوبہ، چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ ٹو، تھری اور فور، نیوکلیئر پاور پلانٹ کے ٹو اور کے تھری۔

‏اسپتال (تعمیر/توسیع) نواز شریف کڈنی اسپتال سوات، بہاولپور وکٹوریا ہسپتال، طیب اردگان ہسپتال مظفر گڑھ، چلڈرن ہسپتال فیصل آباد، ملتان کڈنی سینٹر، راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی، شاہدرہ ٹیچنگ ہسپتال، برن سینٹر ملتان، پنجاب کے نئیٹیچنگ ہسپتال، کاہنہ ہسپتال لاہور، ‏لیہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میں لیب کا اضافہ، گورنمنٹ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال سبزہ زار، مناواں ہسپتال لاہور، شہباز پی اے ایف بیس ہسپتال۔ ایئر پورٹ (تعمیر/توسیع) نیو اسلام آباد ایئر پورٹ، رینوویشن ملتان ایئر پورٹ، رینوویشن فیصل آباد ایئر پور، لاھور ایئر پورٹ ایکسٹینشن، تنصیب فوگ لائٹس ‏لاھور/کراچی/اسلام آبادایئر پورٹس، نیوبرج انسٹالیشن لاھور/کراچی نیواسلام آبادایئرپورٹس۔

انفراسٹرکچر: (تعمیر/زیر تعمیر) (نوٹ: جو کہتے پھرتے ہیں کہ سڑکیں بنانے سے قومیں نہیں بنتیں، ان کے لیے خصوصی عرض ہے کہ سڑک تجارت کا سب سے سستا ذریعہ ہے۔ یہ معاشیات کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ ‏دنیا بھر میں سربراہ مملکت سطح کی کانفرنسیں ہوتی ہیں ”ترقی بذریعہ سڑک“ کے عنوان سے ڈی آئی خان۔ ژوب ہائی وے N۔ 50، لاھور۔ عبدالحکیم موٹروے M۔ 3، فیصل آباد۔ موٹروے M۔ 4، ملتان۔ سکھرموٹروے M۔ 5، سکھر۔ حیدرآبادموٹروے M۔

6، کراچی۔ حیدرآبادموٹروے M۔ 9، لاھور۔ سیالکوٹ موٹروے، ہکلہ۔ ‏ڈیرہ اسماعیل خان موٹروے، لیاری ایکسپریس وے (تیس فیصد) ، گوادرپورٹ ایکسپریس وے، گوادرپورٹ ایکسپریس وے ٹو، شاھدرہ۔ رچناٹاؤن ایکسپریس وے، حسن ابدال۔ مانسہرہ ہزارہ ایکسپریس وے، قراقرم ہائی وے (بحالی منصوبہ) ، لوارئی ٹنل، لاھورایسٹرن بائی پاس، خادم اعلی رورل روڈ منصوبہ۔ ‏ماس ٹرانزٹ/ٹرانسپورٹ: (تعمیر/زیر تعمیر) لاھور میٹرو بس سسٹم، راولپنڈی/اسلام آباد میٹرو بس سسٹم، ملتان میٹرو بس سسٹم، اسپیڈو بس سروس ملتان/بہاولپور/لودھراں /لاھور، اورنج لائن میٹرو ٹرین، کراچی گرین لائن ٹرانزٹ، اربن ٹرانسپورٹ سسٹم لاھور، 12 ریلویاسٹیشنز کی تعمیرنو۔

تعلیم: ‏ 10 ہزار سولر سسٹمز کی اسکولوں میں تنصیب، دانش اسکولوں کا قیام، بارہویں جماعت تک مفت کتابیں اور تعلیم، نمایاں نمبرز حاصل کرنے والے طلباء کو ترکی اور یورپ میں اعلی تعلیم کے لیے وظائف، ہونہار طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم، 50 نئے کالجز کا اضافہ، یونیورسٹیوں کا قیام۔ ‏صنعت و زراعت: 4600 روپے میں فروخت ہونے والی کھاد کی بوری کی 1800 روپے میں فراہمی، کسانوں کو کھاد اور بیج کی خریداری کے لیے بلا سود قرضے، ٹیوب ویل کے لیے پچاس فیصد سستی بجلی، گرین ٹریکٹر اسکیم کے تحت کسانوں کو بلا سود آسان اقساط قرضے۔

صنعتوں کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی ‏۔ اور سی پیک جیسے صنعتوں کی ماں جیسے منصوبے کا آغاز۔ دفاع: ضرب عضب، کراچی و بلوچستان آپریشن، سیکنڈ اسٹرائیک کا تجربہ، بین البراعظمی میزائل شاہین تھری کا تجربہ، پاکستان کے پہلے سیٹلائٹ PRSS۔ 1 کی تیاری و تکمیل، نصر، ابابیل، براق، غوری تھری، وغیرہ کے تجربات۔ ‏روس سے 30 جنگی ہیلی کاپٹروں کی خرید۔ اس کے علاوہ الخالد۔ 2 ٹینک کی شروعات سمیت کئی دیگر آلات حربی جو اس وقت زیر تکمیل ہیں، سب کا خرچ حکومت پاکستان نے خود اٹھایا۔

متفرق: بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے 100 ارب روپے سے زمین کی خرید، 200 نئی ایمبولینسز کا 1122 میں اضافہ ‏اس کے علاوہ ہیلی کاپٹر اور موٹر بائیک ایمبولینسز کی سہولت کا اجزاء، صحت کارڈ کا اجراء، 10 کروڑ پودے لگانے کی مہم کا آغاز اور چند ماہ میں 22 لاکھ پودے لگانے کا ریکارڈ، پنجاب فوڈ اتھارٹی کا قیام، پینے کے صاف پانی کے لیے جا بجا واٹر فلٹر پلانٹس کی تنصیب، ‏ ”بلا سود قرضہ اسکیم“ کے تحت ہنرمند افراد میں 10 ارب روپے کی تقسیم، ایل این جی درآمد کے لیے پورٹ قاسم پہ سسٹم کی تنصیب۔

اور ان سب کے ساتھ پچھلے 60 ارب ڈالر بیرونی قرض کی اربوں ڈالرز کی اقساط اور سود۔ جو پچھلے پانچ سالوں میں ادا کیا گیا۔ ‏کیا اتنا سب کچھ اُن 6 ارب ڈالرز میں ہو پانا ممکن تھا جو 2013 میں پچھلی حکومت چھوڑ کر گئی؟ اور کیا صرف 21 ارب ڈالر میں یہ سب کر دکھانا بچوں کا کھیل لگتا ہے آپ کو جو میاں محمد نواز شریف نے کر دکھایا؟ بے شک ڈالر کی قیمت 99 سے 118 ہوئی۔ مگر آخر کے چند ماہ میں۔ ‏اس سے پہلے دو سے ڈھائی سال اسی مسلم لیگ نے ڈالر 98 سے اوپر بھی نہیں جانے دیا۔

کیا اس قوم کو وہ یاد نہیں؟ یہ بات بھی سراسر جھوٹ کا پلندہ ہے کہ ملکی برآمدات میں کوئی کمی ہوئی ہے۔ درج بالا پروجیکٹس کی مشنری کی خریداری کی وجہ سے ہماری درآمدات البتہ ضرور بڑھی تھیں۔ ‏سعودیہ میں پاکستانیوں کو دھڑا دھڑ نوکریوں سے نکالنے اور امریکی امداد بند ہو جانے سے ترسیلات زر مبادلہ میں نمایاں کمی ضرور آئی تھی۔ حالیہ بجٹ خسارہ انہی تمام اسباب کا ثمر تھا۔ مگر اب روٹی پک چکی ہے۔ ایئرپورٹس، بجلی گھروں اور موٹرویز نے اب کچھ لگوانا نہیں، بلکہ کما کے دینا ہے۔ ‏ان کے لیے مشنری و آلات اب امپورٹ نہیں کرنے، بلکہ ان کے ذریعے ایکسپورٹس کو بڑھانا ہے۔ وہی پرانی درآمدات ہو جائیں گی تو بجٹ خسارہ بھی خود بخود کم ہو جائے گا۔ 21 ارب ڈالر لے کر نواز شریف نے اس ملک کو بگاڑا نہیں، سنوار دیا ہے۔ میاں صاحب کا احسان ہے اس قوم پہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).