ناکارہ سسٹم کا غبارہ


جب سسٹم ناکارہ ہوجائے تو اس کا پہلا شکار عام آدمی ہوتا ہے۔ استحصالی قوتیں زیادہ طاقتور اور زیردست مزید کمزور ہوجاتے ہیں، اس طرح کا نظام ظالم آمروں کے لئے سب سے بہترین ہوتا ہے، جہاں مروجہ قانون ایک طرف رکھ کر وہ قانون نافذ کردیئے جاتے ہیں، جو مطلق العنان کے مزاج کے مطابق ہوں، نتیجے میں فوری فیصلوں کا رواج عام ہوتا ہے، اور ملزم کو صفائی کا حق نہیں ملتا،

ابتدا میں آمر کے قوانین کو مقبولیت ملتی ہے، کیوں کہ نظام کے ستائے ہوئے لوگ، استحصالی گروہوں میں سے چند کو چوکوں پر لٹکے دیکھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا انتقام پورا ہوگیا، جبکہ سرعام ٹانگنے کا رواج آمر کی دہشت میں مزید اضافہ کرتا ہے،

مجھے یاد ہے، جب ایران میں شیعہ اسلامی انقلاب آیا تو ایسی ہی صورتحال تھی، ایران کی سڑکوں پر لوگوں کے بے جان جسم کرینوں پر لٹکے نظر آتے، لوگ سمجھ رہے ہوتے کہ انصاف ایسا ہی ہونا چاہیے، ایران انقلاب کے روح رواں امام خمینی نے جب ایسے اقدامات کے لئے تو ان کو پاکستان میں بھی پذیرائی ملی، ان دنوں ضیا الحق سنی اسلام کے داعی کے طور پر پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک تھے، ملک کے مختلف شہروں میں جلادوں کے ہاتھوں سزا دینے والے پوسٹر فروخت ہوتے تھے، جن پر لکھا ہوتا قتل کے بدلے قتل اور چوری کے بدلے ہاتھ۔

ایران کے شہروں کے چوراہوں پر جتنے لوگوں کو پھانسی دی گئی، ضیا الحق اس نمبر تک نہیں پہنچ سکا، لوگ ان دنوں جب نظام سے تنگ آتے تو ”ایک خمینی کی خواہش کرتے“ لیکن کیونکہ وہ سب کچھ دور سے دیکھ رہے ہوتے اس لئے انہیں اچھا لگ رہا تھا، اب تہران کے کسی نوجوان سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتائے گا کہ اسے کیسا ایران چاہیے، کم سے کم ایسا تو ہرگز نہیں، جیسا اس نے دنیا پر آنکھ کھولتے وقت دیکھا تھا

یہ تلخ یادیں ایک بار پھر اس لئے ابھر آئیں کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ظفر مرزا کی پریس کانفرنس پڑھ رہا تھا، جس میں ان کی بے بسی کا اظہار واضح تھا، ان کے الفاظ اس طرح رپورٹ ہوئے ہیں

” 31 دسمبر 2018 ءکو 889 ادویات کو ایس آر او میں شامل کیا گیا جس کے تحت ادویات کی قیمتیں طے کی گئیں، 464 ادویات کی قیمتوں میں مناسب اضافہ کیا گیا، 395 کی قیمتوں میں کمی کی گئی جبکہ 30 ادویات ایسی تھیں جن کی قیمتوں میں ردوبدل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تمام ادویہ ساز کمپنیاں 20 مئی 2019 ءتک ادویات کی قیمتیں 75 فیصد تک لے آئیں، اگر ایسا نہ کیا گیا تو ڈرگ کورٹ سے رابطہ کریں گے“

حیران کن بات یہ ہے کہ جن تین سو پچانوے ادویات کی قیمتوں میں کمی کی گئی، کمپنیوں نے ان ادویات کی قیمتوں میں کمی نہیں کی، اس سلسلے میں معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ زائد منافع لینے والی کمپنیوں کے خلاف ڈرگ کورٹ جائیں گے

پاکستان میں جب کسی معاملے کو التوا میں ڈالنا ہو حکومت کمیٹی بنادیتی ہے اور لوگ عدالت میں چلے جاتے ہیں، جس کے بعد معاملات کھوہ کھاتے چلے جاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جن لوگوں کو معاملات میں التوا نہ ڈالنا ہو تو وہ تھانے اور کچھری کے بجائے باہر معاملات حل کرلیتے ہیں، وہ کسی ثالث کے نخرے برداشت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن سالوں تک عدلیہ میں ذلیل ہونا پسند نہیں کرتے، اس لئے سمجھنا چاہیے کہ جب حکومت یا کمپنیاں ڈرگ کورٹ چلی جائیں تو معاملات ادھر ہی رہیں گے، جو جس نے ہڑپ کیا اسی کا حق ٹھہرا، مریضوں کی جیبوں سے جو کروڑوں روپے نکلے ان کی واپسی کا امکان نہیں ہوتا۔

پاکستان میں ایسا صرف محکمہ صحت یا فارماسیوٹیکل کمپنیوں میں ہی نہیں، ملک کے ہر اس شعبے میں ہے، جو یہاں موجود ہے، آپ کسی چھوٹے بڑے شہر کے بس اسٹاپ پر چلے جائیں، لوگوں سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ یہ نظام کیسا ہے، آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ جنہیں ہمارے دانشور حضرات جاہل عام آدمی کہتے ہیں، ان کا مشاہدہ ان سے کتنا تیز ہے، وہ اس نظام پر تھوکنا بھی نہیں چاہتے، جس میں ان کی حیثیت سوائے ایک معمولی پرزے کے کچھ نہیں، انہیں بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ظالم وڈیرا یا چوہدری اس منصف سے ہزار بار اچھا ہے، جو انہیں دوسرے ظالم سے بچاتا ہے، پاکستان کے نوے ستر فیصد لوگ اسٹاک ہوم سینڈروم کی بیماری کا شکار ہیں، جس میں مغوی اغوا کرنے والے کے رومانس میں یرغمال ہوجاتاہے۔

اس لئے اس ملک کے سولین حکمرانوں اور ان کے پارٹنرز کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ نظام کے غبارے میں مسلسل وعدوں اور تسلیوں کی ہوا نہیں بھری جاسکتی، وہ اگر انسان نہیں بنتے تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ غبارے میں ہوا کی ایک حد ہوتی ہے اور اس کے بعد دھماکا ہوتا ہے، اور دھماکے کے بعد فی الحال سکتہ طاری ہوتا ہے، اور آس پاس کچھ بھی نظر نہیں آتا اور نہ سننے میں کچھ آتا ہے

پس تحریر : یہ میرے جذبات ضرور ہیں، لیکن ایسا ویسا ہونا کچھ بھی نہیں، کیونکہ جس منظر سے ہم اکتاجاتے ہیں تو وہ ریموٹ سے منظر تبدیل کرلیتے ہیں، پوری روٹی چھن جائے تو چیخنے کے بعد آدھی روٹی ملنے پر خوش ہوجاتے ہیں اور اپنی ہی آدھی روٹی بھول جاتے ہیں

( رزاق کھٹی اسلام آباد میں ایک ٹی وی چینل میں سینئر سیاسی و پارلیمانی رپورٹر کے طور پر کام کرتے ہیں)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).