قبائلی صحافی اور سرکاری افسر کا مکالمہ


قبائلی صحافی: سر اتنی کم تنخواہ میں سرکاری افسران امیر کیسے بن جاتے ہیں؟
سرکاری افسر: آپ کے قبیلے کے جائیداد تنازعہ کا کیس ہماری عدالت میں ہیں اور سماعت جاری ہے۔

قبائلی صحافی: قبائلی علاقہ جات میں جونیئر سرکاری اہلکار سینئراہلکاروں سے زیادہ طاقت ور کیوں ہیں؟
سرکاری افسر: کار سرکار میں مداخلت کرنا جرم ہے جس کی سزا جیل بھی ہو سکتی ہے۔

قبائلی صحافی: سرکاری دفاتر اور کینٹ میں بجلی ہوتی ہے جبکہ باقی علاقوں میں تاریکی کیوں ہے؟
سرکاری افسر: نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل در آمد ہو رہا ہے اور قومی مفاد اولین ترجیح ہے

قبائلی صحافی: جناب! اسکولوں اور اسپتالوں کی حالت دن بدن خراب ہو رہی ہے؟
سرکاری افسر: کھیل کے میدان جب آباد ہوتے ہیں تو اسپتال ویران ہوتے ہیں

قبائلی صحافی: عوام کو پینے کا پانی چاہیے؟
سرکاری افسر: محکمہ موسمیات کے مطابق امسال مون سون میں زیادہ بارش ہوگی

قبائلی صحافی: قبائلی طلباء و طالبات کو لیپ ٹاپ دینے کا کوئی پروگرام ہے؟
سرکاری افسر: سام سنگ نے نیا سمارٹ فون متعارف کرا دیا ہے جس میں تمام سہولیات موجود ہیں

قبائلی علاقہ جات میں ایک سرکاری افسر کے سے ہونے والا یہ مکالمہ غمازی کر رہا ہے کہ سابقہ فاٹا میں مقامی صحافیوں کو معلومات تک رسائی نہ دینے کے لئے کن حیلے بہانوں سے کام لیا جاتا رہاہے بلکہ الٹا ان پر دباؤ ڈال کر ان کو سٹوری فائل کرنے سے روکا جاتا ہے۔ ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس کے مطابق قبائلی اضلاع میں 360 سے زائد صحافی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابسطہ ہیں اور نائن الیون کے بعد سے اب تک کل 15 قبائلی صحافیوں نے پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ہے جبکہ علاقے میں معلومات تک رسائی نہ ہونیکے باعث اکثر صحافی مایوس ہو کر یا تو صحافت چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور یا انہوں نے اپنے لئے متبادل روزگار کا انتخاب کر لیا ہے۔

اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو سب سے زیادہ کہانیاں فاٹا ہی سے ملتی ہیں جہاں نہ صرف انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے بلکہ برٹش دور سے موجود کالے قوانین کے باعث مقامی قبائل کی زندگی بھی اجیرن بن گئی ہے۔ میڈیا ناقدین کہتے ہیں کہ اگر قبائلی اضلاع میں مقامی صحافیوں کو معلومات تک رسائی میسر ہوتی تو نہ صرف اس کی وجہ سے علاقائی مسائل حل ہوتے اور کرپشن کا خاتمہ ہوتابلکہ قبائلی صحافیوں کو بھی نوکریوں سے ہاتھ نہ دھونا پڑتا اور وہ مزید بہتر طریقے سے ملک و قوم کی خدمت کرپاتے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب سے فاٹا کا خیبر پختونخوا کے ساتھ انضام ہوا ہے تب سے قبائلی صحافی یہ آس لگا بیٹھے ہیں کہ انہیں بھی رائٹ ٹو انفارمیشن قانون کے تحت معلومات تک رسائی مل جائے گی جس کی وجہ سے وہ موئثر طریقے سے جاندار رپورٹنگ کرسکیں گے لیکنافسوس کی بات ہے کہ انضمام کے بعد صوبائی اور مرکزی حکومتیں سابقہ فاٹا میں صرف اپنے فائدے اور مقاصد حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے جبکہ انہوں نے ابھی تک مقامی قبائل اور صحافیوں کو کوئی ریلیف نہیں دیا ہے۔

امسال عالمی یوم آزادی صحافت کے حوالے سے قبائلی اضلاع کے جملہ صحافیوں نے معلومات تک رسائی کا مطا لبہ کیا ہیں تاکہ وہ حقیقی معنوں میں مستند ڈیٹا کے ساتھ علاقائی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر سکیں اور ساتھ ساتھ صحافتی ذمہ داریوں کو بھی پورا کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).