کیکڑوں کے معجزے


کیکڑا ون پراجیکٹ سے تیل یا گیس نہیں نکلی۔ کسی آس امید پر ہی انٹرنیشنل کمپنیاں اور حکومتیں انتہائی مشکل کھدائی کرتی اور اربوں روپیہ جھونکتی ہیں۔ لیکن یہ نہ تھی ہماری قسمت۔۔۔

فرض کریں یہاں سے جیسے کہ اندازے لگائے جا رہے تھے، اس مقدار میں گیس نکل آتی تو مشرف صاحب سے لے کر پی ٹی آئی تک ہر حکومت اس ذخیرے کا کریڈٹ ایسے لیتی نظر آتی جیسے انہوں نے خود وہ گیس وہاں چھپا رکھی تھی۔ خان صاحب تو عرصہ ہوا اسی پہ تکیہ کیے بیٹھے تھے کہ حکومت کی تمام تر نااہلیاں اور غلطیاں اسی گیس کے ساتھ ہوا میں تحلیل ہو جانی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ہر پارٹی کا حامی سمارٹ فون پکڑے انتظار میں تھا کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے، جگتیں لگانی ہیں یا اسے کپتان کی وجہ سے اللہ کا خاص فضل قرار دینا ہے یا ن لیگ دور میں کئے گئے معاہدوں کی تاریخیں بتانی ہیں۔ موجودہ حکومت کے زیادہ وزیر منتظر تھےکہ اپنے اپنے محکموں کی کارکردگی چھوڑ کر کیکڑا ون پراجیکٹ پر پریس کانفرنس میں کیسے اسے اپنے محکمے کی کارکردگی بتانا ہے۔

گیس نکل آتی تو فائدہ ملک کا تھا، نہیں نکلی تو نقصان قوم کا ہوا، کسی عمران خان، خاقان عباسی یا میاں صاحب کا نہیں۔ لیکن یہ کیا کہ ہم ایسے ہی انڈوں کی ٹوکری اٹھائے اپنی ساری قسمت سنوارنے کے خواب دیکھتے ہیں اور انڈے دھڑام سے ٹوٹنے پر ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں آتا۔

عام آدمی بھی اپنے اردگرد اپنے دائرہ کار میں کسی بہتری کسی تبدیلی کی بجائے کسی انہونی، کسی معجزے، کسی چھو منتر، فرشتوں کی کسی فوج کا منتظر ہے۔ کسی لاٹری کے لگنے کا کہ کام کئے بغیر اربوں پتی ہوجانا ہے۔ امریکہ یا یورپ پہنچ کر ہی پیسے کمانے اور امیر ہونا ہے۔ اسی رویے نے ہم سے آگے بڑھنے کا حوصلہ، خود کو تبدیل کرنے کی صلاحیت اور بہتری کا جذبہ چھین لیا ہے۔

مجھے آج ہی ایک دکان پر سلا سلایا شلوار قمیض پسند آیا، پہنا تو باقی سب ٹھیک تھا پیٹ سے ذرا سا تنگ۔ میں نےکہا یہ پیٹ تھوڑا سا اندر ہوجائے تو باقی سب بہت اچھا ہے۔ آج کل کے بچے بد تمیز، بیٹی کہنے لگی بابا اس کے لئے کچھ کرنا پڑتا ہے، بیٹھے بٹھائے معجزہ نہیں ہو جانا۔ غصہ آیا لیکن اس کی بات پر غور کیا کہ مجھ سمیت عام آدمی سے لے کر حکمرانوں تک ہمارا ہر معاملے میں عجیب رویہ ہے کہ ہم معجزوں کی منتظر قوم ہیں، خود کچھ نہ کرنے یا خود کو تبدیل نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ عیسیٰ آسمان سے اتریں گے تو ہماری اصلاح کریں گے اتنی دیر ہم نے کچھ نہیں کرنا۔ سی پیک بن گیا تو راہداری کی مد میں ہمیں اتنے پیسے مل جانے ہیں کہ ہم نے امیر ہوجانا ہے۔ افغانستان راہداری میں ہمیں اربوں ڈالر مل جانے ہیں۔ تیل یا گیس نکلا چاہتی ہے بس پھر ہمارے دن پھر جانے ہیں۔ اور جتنی دیر یہ معجزے نہیں ہوتے ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں۔

یورپ کی دوسری اقوام جرمنوں کو اب بھی لوہا کوٹنے والے کہتے ہیں لیکن جرمنوں نے اسی لوہے سے مرسڈیز، بی ایم ڈبلیو، سیمینز، SAP، ایڈی ڈیس، ہوگو بوس جیسی کمپنیاں برآمد کی ہیں۔ان کی محنت، ان کی لگن، ان کی ہر میدان میں مہارت اور ان کی ہر پل اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی خواہش نے اقوام عالم کو بہت سے میدانوں میں ان کا محتاج کردیا ہے۔ جرمنوں کے علاوہ جاپان، سنگاپور، کوریا، اسرائیل، امریکہ غرض جس بھی ترقی یافتہ قوم کو دیکھیں گے ان کے معجزے ہنر کے معجزے ہی ہوں گے کوئی ما بعد الطبیعات قسم کے نہیں۔

ہماری قوم کو بھی فرد سے لے کر ریاست تک ہر جگہ خود کچھ کرنا ہوگا پھر ہی حقیقی تبدیلی آئے گی، ذات میں بھی، قسمت میں بھی اور ریاست میں بھی۔ ورنہ کل امریکہ کی طرف دیکھ رہے تھے آج چین کی طرف کل کسی اور طرف دیکھ رہے ہوں گے کہ ہمارے دن پھیرنے کب کوئی منصوبہ لئے ہماری دھرتی پہ اترتے ہیں، کب کوئی کیکڑا ون معجزا دکھاتا ہے۔ کل عبیداللہ علیم کی برسی تھی، آخر میں اس شاعر جمیل و شاعر جمال کا ایک خوبصورت شعر کہ

اترے گا نہ کوئی آسماں سے

اک آس میں دل مگر صدا دے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).