میں عورتوں سے دوستی کیوں کرتا ہوں؟


محترمہ صائمہ نسیم بانو صاحبہ۔

’درویشوں کے ڈیرے‘ کو پڑھنے اور اس پر اپنی رائے دینے کا شکریہ۔ وہ پچاس خطوط درویش اور رابعہ الربا شعور اور لاشعور کی رو میں لکھتے چلے گئے اور دو مہینوں میں کتاب مکمل ہو گئی۔ وہ تبادلہ دو دوستوں کا تخلیقی تبادلہ تھا اس لیے اس سفر میں میرا اپنی شخصیت کے چند نہاں خانوں سے تعارف ہوا۔

آپ نے رابعہ الربا کی اپنے والد سے جدائی کا ذکر کیا ہے وہ ان کا ایک ادیبہ بننے کے لیے کلیدی تجربہ تھا کیونکہ اس دوران انہوں نے خط لکھنے شروع کیے جو بعد میں ڈائری اور افسانے لکھنے کا پیش خیمہ ہوئے۔ جدائی کا نفسیاتی تجربہ بعض دفعہ تخلیقی تجربے میں ڈھل جاتا ہے۔

درویش کی ہجرت بھی جدائی کا۔ اپنی ماں اور دھرتی ماں سے جدائی کا۔ ایک اہم تجربہ ہے۔ جب مہاجر دو زبانوں ’دو مذاہب اور دو ثقافتوں میں زندہ رہنا سیکھتے ہیں تو ان کے اندر کی تیسری آنکھ کھل جاتی ہے۔ اسی لیے بیسویں صدی کے عالمی ادب میں مہاجر ادیبوں کے بہت سے ادبی تحفے شامل ہیں۔

مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ’درویشوں کے ڈیرے‘ کو پڑھنے کے بعد آپ کے قلم کو تحریک ملی اور آپ نے ادبی محبت نامے کے حوالے سے ایک فن پارہ تخلیق کیا۔

آپ نے اپنے ادبی محبت نامے میں اپنا اور رابعہ الربا کو جو تقابل کیا ہے وہ دلچسپ بھی ہے دل گیر بھی اور دلفگار بھی۔ آپ کے خواب میں بہت سی اور مشرقی عورتوں کے خواب پوشیدہ ہیں۔

میں نے آپ کا خط ایک سے زیادہ بار پڑھا اس میں خیالی محبوب کی

ایک خواہش ہے

ایک آس ہے

ایک امید ہے

ایک آرزو ہے

کیا آپ آرزو کا مقدر جانتی ہیں

آرزو اور آرزو کے بعد خونِ آرزو

ایک مصرعہ میں ہے ساری داستانِ زندگی

آپ کی آرزو ایک فینٹسی ہے ایسی فینٹسی جس کی کوکھ سے کوئی نظم یا افسانہ یا ناول تو پیدا ہو سکتا ہے کوئی حقیقت جنم نہیں لے سکتی۔

میں ایک حقیقت پسند انسان ہوں صرف ایسے خواب دیکھتا ہوں جو شرمندہِ تعبیر ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے میں عورت سے دوستی کا رشتہ استوار کرتا ہوں کیونکہ دوستی ایک پائدار اور پرسکون رشتے کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔

آج کل رشتوں کا یہ عالم ہے

جو بھی نبھ جائے بھلا لگتا ہے

یونانی دیو مالا کی ایک کہانی ہے کہ ایک وہ زمانہ تھا جب انسان آدھا عورت اور آدھا مرد ہوتا تھا پھر اس پر خداوندِ زیوس کا عتاب اور عذاب نازل ہوا اور وہ دو حصوں میں بٹ گیا۔ ایک حصہ مرد بن گیا ایک عورت اور وہ اب ایک دوسرے کی تلاش میں حیراں پریشاں اور سرگرداں ہیں۔

میرا موقف یہ ہے کہ ہر انسان مکمل ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت اور اگر وہ چاہے تو اکیلا پرسکون زندگی گزار سکتا ہے۔ میں زندگی کے بیس سال اکیلا رہا ہوں اور خوش رہا ہوں۔

میں شریکِ حیات کے خلاف نہیں لیکن میری نگاہ میں وہ ضروری نہیں اضافی ہے۔ دوستوں کا حلقہ ضروری ہے جسے میں فیملی آف دی ہارٹ کہتا ہوں۔

میرے دوستوں کے حلقے میں عورتیں بھی شامل ہیں مرد بھی۔ مشرقی بھی ہیں اور مغربی بھی۔ میں دوستوں کے حوالے سے بہت خوش قسمت واقع ہوا ہوں۔

آپ بھی خوش قسمت ہیں کہ آپ ایک شاعرہ ہیں ادیبہ بھی اور دانشور بھی۔ آپ اپنے خیالات اور جذبات کو الفاظ کا روپ دینا جانتی ہیں۔ اگر آپ اپنے خواب اور آدرش رقم کرتی رہیں تو آپ کے الفاظ آپ کے زخموں کا مرہم بن جائیں گے اور آپ خود اپنی مسیحا بن جائیں گی۔ اور کسی دوسرے طبیب یا مسیحا سے بے نیاز ہو جائیں گی۔

میری نگاہ میں کسی بھی مشرقی عورت کے آزاد اور خود مختار ہونے کے لیے اہم ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر خود کھڑی ہو۔ تعلیم حاصل کرے۔ ملازمت کرے۔ اپنے دوست بنائے۔ اس کے بعد وہ ایسا شریکِ سفر چنے جو اس کی عزت کرتا ہو اس کا احترام کرتا ہو اور اسے انسان ہونے کے ناطے برابر سمجھتا ہو۔ محبت کا ایک صحتمند رشتہ دو برابر کے انسانوں کے درمیان ہی ممکن ہے۔

آپ کا کیا خیال ہے؟

آپ کا دوست جو ایک ادیب بھی ہے اور ایک طبیب بھی

خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail