اگست کی آسودہ دھوپ میں اوائل بہار کی چوتھائی صدی پرانی تصویر


مسافروں سے بھری ٹرین شام کے ملجگے اندھیرے میں دوڑتی جا رہی تھی، چھکا چھک، چھکا چھک!

مرد، عورتیں، بچے، نوعمر لڑکے لڑکیاں، پھیری والے، گداگر، ٹکٹ چیکر !

کچھ منزل کے اشتیاق میں کھلے ہوئے، کچھ سفر کی تھکان کی اکتاہٹ لیے ہوئے، کچھ کتاب میں گم اور کچھ باہر دوڑتے ہوئے ہرے بھرے کھیتوں کی تراوٹ دل میں اتارتے ہوئے۔

 اور ان سب میں ایک ادھیڑ عمر آدمی، روشن پیشانی اور اجلی رنگت کے ساتھ بات بے بات مسکراتا ہوا۔ مسرت کی شعائیں بکھیرتا ہوا۔ ساتھ بیٹھے مسافروں کو بار بار مقصد سفر بتاتا ہوا۔

وہ مسافر اکیلا نہ تھا۔

اس کے ساتھ کم وبیش اسی عمر کی خاتون، متانت اور سنجیدگی چہرے پہ طاری۔ اپنے شوہر کی مسلسل اجنبی مسافروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش پہ دبی دبی مسکراہٹ۔ اور بیچ میں ہلکی آواز میں شوہر کو ٹوکنے کی کوشش۔

ٹرین کی کھڑکی کے شیشے کے ساتھ چپکی ایک جوان لڑکی، باہر کا منظر بے دھیانی سے دیکھتی، ساتھ بیٹھے ہوؤں سے لاتعلق دکھتی، چہرے پہ دبا دبا غصہ، آنکھوں میں اضطراب، کھنچی ہوئی بھوئیں، ہونٹوں کو کاٹتی، مڑ کے دونوں کو دیکھتی اور پھر کھڑکی میں گم ہو جاتی۔ کبھی کبھی ہلکی آواز میں خاتون کو کہتی

 “ اماں انہیں روکیں نا ! کیا پوری ٹرین میں اعلان کر رہے ہیں “

خاتون مسکراتیں اور کہتیں

“ بیٹا ! معلوم تو ہے تمہیں وہ کس قدر خوش ہیں “

“ ٹھیک ہے اماں پر مجھے خفت محسوس ہو رہی ہے نا، دیکھیے نا اجنبی مسافروں سے وہ ایک ہی بات کہتے چلے جا رہے ہیں “

یہ 1993 تھا !

اور یہ پنڈی سے لاہور جانے والی شام کی ریل کار تھی !

قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے میڈیکل کالج سے ہرکارہ یہ پیغام لایا تھا کہ گریجویٹ ڈاکٹرز میں ڈگریاں بانٹی جائیں گی اور بانٹنے والی ہوں گی اس وقت کی وزیر اعظم، بے نظیر بھٹو۔

یہاں تک تو ٹھیک تھا، لیکن پروانہ کچھ اور بھی کہتا تھا۔ جن لوگوں کو نمایاں کارکردگی پہ سونے کے تمغے سے نوازا جانا تھا، ان کے ماں باپ کو بھی مہمان کے طور بلایا گیا تھا تا کہ وہ اپنی زندگی بھر کے خواب کی تعبیر دیکھیں۔ ایک چھوٹے پودے کو تناور درخت بنا دیکھیں۔ اپنی زندگی بھر کی مشقت اور بے خواب راتوں کا ثمر چکھیں۔

اس سونے کا تمغہ پانے والی لسٹ میں ہمارا نام بھی شامل تھا، بہترین آل راؤنڈر طالبہ کے طور پہ۔

یہ صرف خبر نہ تھی، یہ ایک نوید تھی جو ان دو بوڑھے لوگوں کو ماضی کی مشقت بھلاتی تھی اورایک ایسی سرخوشی کی مہک پھیلاتی تھی کہ دونوں مدہوش ہوئے جاتے تھے۔

میرے ماں باپ نے رخت سفر باندھ لیا۔ نئے کپڑے سلوائے گئے۔ لاہور جانے والی ٹرین پہ نشستوں کی بکنگ کروائی گئی۔ لاہور میں میزبانوں کو اطلاع دی گئی اور یوں آج ہم ٹرین میں تھے جہاں ابا بے انتہا خوش تھے اور ہم تھوڑے شرمندہ، تھوڑے بے چین !

ابا اپنے ہم سفروں کو بار بار اپنی ڈاکٹر بیٹی کی کامیابیاں گنواتے، ان کی ٹھنڈی دل چسپی کو نظر انداز کرتے کانووکیشین کا پروگرام بتاتے، مہمان خصوصی ملک کی وزیر اعظم ہے اور وہ بیٹی کو سونے کا تمغہ پہنائے گی کا اعلان کرتے۔ یہ سب ہمیں اس وقت بہت ناگوار گزرا تھا اور ہم نے سوچا تھا

“ ابا واقعی سٹھیا گئے ہیں، اجنبیوں کو ایک ہی بات کم وبیش دس مرتبہ سنا چکے ہیں “

اور میں جھنجھلاتی تھی اور اماں کو انہیں منع کرنے کا کہتی تھی۔ اماں زیر لب مسکراتی تھیں، جانتی تھیں، کہنے کا کوئی فائدہ نہیں، آج وہ رکنے والے نہیں۔

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔

اب 2019 ہے، اور ایک سفر پھر درپیش ہے۔

بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا !

مسافر بدل گئے، چہرے اوجھل ہو گئے، مقام بھی وہ نہ رہا، ٹرین کی جگہ جہاز نے لے لی۔ لاہور کی جگہ نیویارک منزل ٹھہری۔ وقت نے سب بدل ڈالا مگر ایک چیز ابھی بھی وہی ہے، ویسی ہی ہے۔

مسافروں سے بھرا ایک جہاز، آسمان کی لامحدود وسعتوں میں پرواز کر رہا ہے !

مرد، عورتیں، بچے، لڑکے، لڑکیاں، ڈچ ائر ہوسٹسیں اور سٹیورڈ !

کچھ مسافر سو رہے ہیں، کچھ بیزاری کے عالم میں اونگھ رہے ہیں۔ کچھ اپنی سیٹ کے آگے لگے مانیٹر پہ فلم دیکھ رہے ہیں۔ سب کو ایک لمبے سفر کے بعد منزل پہ پہنچنا ہے۔ منزل کا انتظار سب کو تھکاتا ہے۔

اور ایک ماں بےتابی، شوق، فخر اور انبساط کے جذبات سے لبا لب بھری بیٹھی ہے۔ وقت گزر نہیں رہا اور دل چاہتا ہے کہ میں ساتھ بیٹھے ہوؤں سے باتیں کروں، بہت سی باتیں۔ خوشی میرے روم روم سے کیوں پھوٹ رہی ہے۔ کیا ہے جو میرے لہو میں سرخوشی بن کے دوڑ رہا ہے۔

 میں بتاؤں انہیں کہ میں سات سمندر پار کیوں جا رہی ہوں کہ وہ دن آنے کو ہے جب میری وہ سب تمنائیں مجسم ہوں گی جن کا خواب میں نے پچیس برس دیکھا۔ میں اب دیکھوں گی اپنی تمام عمر کی آرزوؤں کو بر آتے ہوئے۔

میری اس کیفیت پہ اور ساتھی مسافروں سے بات کرنے کی خواہش پہ ٹوکنے کے لئے میری بیٹی ساتھ نہیں۔ ماں کی بے چینیوں پہ ناک بھوں چڑھانے والی ایک دور دنیا میں ہے، جہاں وہ منتظر ہے اپنی ماں کی، جس نے خواہشوں کے سفر کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں اعلی تعلیم کے سپنے سجائے۔ اس کو اڑنے کی آگہی دی اور پھر خود دل پہ پتھر رکھ کے، جدائیوں کے بےکراں عذاب سہتے ہوئے اس کے پر کھول دئے، دنیا کی وسعتیں ماپنے کے لئے۔

جہاز لینڈ کرنے کو ہے۔ آج میرا چہرا پھر کھڑکی سے چپکا ہوا ہے۔ باہر تیز دھوپ میں چمکتا بلند وبالا عمارتوں کا جنگل ہے۔ کچھ ہی دیر میں وہ چاند چہرا سامنے ہو گا، جس کی کانووکیشین میں شرکت کے لیے ہم نے بیس گھنٹے کے سفر کی آزمائش جھیلی ہے۔

فاصلوں کا سفر بے شک طویل سہی، مسافت برسوں پر محیط سہی لیکن علم اور روشنی کا، آرزوؤں کا، محبتوں کا یہ سفر جاری رہنا چاہئے نسل در نسل، کہ یہی ہمارا مقصد حیات ہے۔

(ہمارے ابا جان ہماری کانووکیشن میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔ جس رات ہم لاہور پہنچے، اسی رات انہیں ہارٹ اٹیک ہو گیا تھا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).