ایک اجنبی خاتون کے لئے عید راشن کا پہلا میسج


جون کا مہینہ اوردوپہر تقریباً ایک بجے کا وقت تھا میں اپنے کمرے میں لیٹا فیس بک پہ افسانہ پڑھنے میں محو تھا کہ اچانک موبائل کمپنی سے ایک میسج موصول ہوا، أپ کا بیلنس پندرہ روپے سے کم ہے أپ بغیر کسی پیکج کے نیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ میرا ماہانہ نیٹ پیکج ختم ہونے کے ساتھ ساتھ موبائل میں موجود اسی روپے کا بیلنس بھی اُڑن چھو ہو چکا تھا۔ اب کیا کروں؟ ابھی أدھا افسانہ پڑھا تھا، افسانے پہ تبصرہ کرنا بھی ابھی باقی تھا، تبصرہ تو لکھاری کا حق ہوتا ہے، کمرے سے باہر جھانکا تو سورج نے روزہ رکھ کر باہر نکلنے کی بالکل بھی اجازت نہ دی۔

واپس أکر پھر لیٹ گیا مگر ایک عجیب سی بے چینی نے پریشان کر دیا، افسانہ ادھورا رہ گیا، تبصرہ بھی لازمی کرنا ہے تبصرے کے لیے تو مجھے مینشن بھی کیا گیا ہے اب کیا کروں، پورا دن کیسے گزرے گا خودکلامی کے بعدایک بار پھراٹھا سر پہ تولیہ بھگو کر رکھا اور خراماں خراماں محلے کی دکان کی طرف چل دیا۔ جس محلے میں میرا گھر ہے اس کی کچی کوڑے کے ڈھیر لگی گلیوں میں غربت بھوک ننگ اور محرومیوں کے سائے جابجا رقصاں اور ہر تیسرے گھر کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں اور محلے کی اس حالت کے ذمہ داران کا منہ چڑا رہے ہیں۔

جو محض الیکش کے دنوں میں ووٹ کی حد تک ان گلیوں میں تشریف لاتے ہیں۔ اس محلے میں بیسیوں ایسی کہانیاں ہیں جن کا تصور ہی روح کو لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔ متعدد خاندان نشے کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ کتنی ہوا کی بیٹیاں ہیں جن کو مفلسی کے ساتھ ساتھ دو چارچھ بچوں کی سوغات دے کر نشے کے عادی مرد حضرات محرومیوں کی دلدل میں دھکیل کر نشے کی تاریک وادیوں میں کھو گئے ہیں۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ہم سب بہن بھائی کتنے مقدر والے ہیں کہ ہمارے ابا حضور نے غربت تنگ دستی کے باوجود نہ صرف اپنے سب بچوں کو زیور تعلیم سے أراستہ کیا، بلکہ دین دنیا انسانیت سکھائی۔ معاشرے کے ساتھ چلنے کا ڈھنگ طور طریقے بھی سکھائے۔ شکریہ امی جان شکریہ ابا حضور۔

میں موبائل بیلنس حاصل کرنے کے لیے محلے کی دکان پہ پہنچا تو ایک پینتیس چھتیس سالہ خاتون کچھ سودا سلف لے رہی تھی اور چھ سات سال کا بچہ اس کی قمیض کا دامن کھینچ کھینچ کر کہہ رہا تھا ”امی بسکٹ لے کر دیں۔ “ میں بھی انتظار میں کھڑا ہو گیا کہ دکاندار فارغ ہوتا ہے تو موبائل لوڈ کرواتا ہوں۔ یہ کیا دو کلو أٹا، بیس روپے کا گھی، پانچ روپے کا چائے کی پتی کا پیکٹ، دس روپے کی چینی، پانچ روپے کا اچار۔ افف یہ پسینہ مجھے گرمی اور روزے کی وجہ سے أرہا ہے یا کوئی اور وجہ ہے؟

میرا شوگر لیول ڈاون ہو رہا ہے یا اچانک روزہ لگ گیا، یہ مجھے کیا ہو رہا ہے؟ یا دکاندار اور خاتون کے درمیان ہونے والی گفتگو کا اثر ہے۔ مجھے لگا جیسے بچے کی ہچکیاں میرے دل کی دھڑکن کے تسلسل میں خلل ڈال رہی ہیں۔ میں اپنے أپ سے دل دل ہی دل میں مخاطب تھا۔ بچے کے رونے کے باوجود ماں اسے بسکٹ کا پیکٹ نہیں لے کر دے رہی اتنا کم سودا سلف۔ میرا جی چاہا جیب میں موجود سارے پیسے خاتون کو دے دوں، لیکن ایک انجان اور جواں سال خاتون کو میں پیسے کیسے دوں۔

اسے برا ہی نہ لگے۔ دکاندار کی سوالیہ نظروں کے ڈر سے میں نہ تو بچے کو بسکٹ لے کر دے سکا اور نہ ہی خاتون کی کوئی مدد کر سکا، میں کتنا بزدل ثابت ہوا۔ خاتون سودا سلف لے کر روانہ ہو گئی بچہ بھی اپنی امی کا دامن کھینچتا روتا ہوا پیچھے چلنے لگا۔ مگر میرا دل ذہن دماغ سب جمود کا شکار ہو چکے تھے۔ پہلی بار موبائل لوڈ کروانا فضول خرچی لگ رہا تھا۔ اس دن میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے محلے کے ایسے گھرانوں کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا۔

میں کرپشن چوری خردبرد سے پاک اور تنخواہ پہ گزارا کرنے والا سرکاری ملازم ہوں میرے لیے تنہإ یہ سب کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے میں نے اپنے فیس بک کے چاہنے والوں وٹس ایپ گروپس کے اہل دل ممبران کی مدد لینے کا فیصلہ کیا اور پھر ایک دن ایک پوسٹ بنا کر فیس بک اور وٹس ایپ گروپس میں شیٕر کردی۔ جس کا پہلا جواب ایک اجنبی نمبر سے ملا۔ صاحب تحریر نے مجھے وٹس ایپ پر میسج کیا، بابا جی بھکاری ماڈرن ہوگئے ہیں، پہلے شک تھا لیکن أپ کی پوسٹ پڑھ کے یقین ہوگیا۔

یہ میسج پڑھ کر مجھے جھٹکا لگا۔ بہت افسوس ہوا مجھے لگا میں نے اپنے قد سے بہت چھوٹا کام کردیا۔ لوگ تو مجھے بھکاری سمجھ رہے ہیں۔ یہ میں نے کیا کیا؟ اگر میری اپنی اتنی استطاعت نہیں تھی تو مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن پھر میری أنکھوں کے سامنے وہ دو کلو أٹے کا شاپر اور بسکٹ مانگتا بچہ أگئے۔ مجھے لگا وہ مجھے کہہ رہے ہیں تم بہت کمزور ہو باباجی۔

دوتین بارپڑھنے کے بعد میں نے وہ میسج ڈیلیٹ کر دیا۔ دوتین بار اس لیے پڑھا کہ شاید اس کا کوئی اور مطلب نکلتا ہو۔ ہوسکتا ہے میسج کرنے والا میری کوئی اصلاح کرنا چاہتا ہو۔ اس لیے سخت ترین میسج کردیا۔ میں اس میسج میں اصلاح کا پہلو تلاش کرتا رہا مگر ہر بار اس میسج کا ایک ہی مطلب نکل رہا تھا جو میرا حوصلہ پست کیے جا رہا تھا۔ اسی اثنإ میں میرے محکمے کے ایک سینیٕر أفیسر کا میسج أیا، بابا جی میں اس خاتون کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔

ابھی میں میسج پڑھ رہا تھا کہ ہمارے شہر حاصلپور کے ایک بڑے منظم پرائیویٹ سکول کے پرنسپل صاحب کا فون أگیا پہلے تو میری تحریروں کی تعریف کی پھر میرے نیکی کے جذبے کو سراہا اور ساتھ دو گھروں کا راشن بھیجنے کا نہ صرف وعدہ کیا بلکہ دو گھنٹے بعد ان کا بھتیجا راشن لے کر پہنچ چکا تھا ملک صاحب سلامت رہیں۔ أپ جیسے اہل دل درددل رکھنے والے لوگ معاشرے کا حسن ہوا کرتے ہیں۔ ملک صاحب سے بات مکمل ہوئی ہی تھی کہ انگلینڈ سے میرے ایک چاہنے والے کا میسج موصول ہوا۔

بابا جی شکر ہے کوئی أپ جیسا بندہ بھی سامنے أیا اب ہم اس یقین کے ساتھ اس کار خیر میں حصہ ملائیں گے کہ حقداران کو حق پہنچ سکے گا۔ میرے کچھ مصنف دوستوں نے میرے جذبے کو سراہتے ہوئے اس کار خیر میں شمولیت کی یقین دہانی کروائی۔ اب میں مکمل طور پہ موصول ہونے والے پہلے میسج سے ملی تکلیف کو نہ صرف بھول چکا تھا بلکہ أئندہ کے لیے منظم طریقے سے حقداران کی فہرست تیار کر کے خدمت کرنے کا فیصلہ بھی کرچکا تھا۔ میرا اللہ مجھے میرے ارادے میں ثابت قدم رکھے۔ اور جن لوگوں نے میرا حوصلہ بڑھایا میری ڈھارس بندھائی اللہ انھیں انسانیت کی مزید خدمت کرنے کی ہمت دے أمین۔ بابا جیونا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).