افطار پارٹی عوام کے ساتھ مذاق تھا !


سعادت حسن منٹو تو عصمت چغتائی کو بہت بولڈ موضوعات پر دبنگ ہو کر لکھنے کی وجہ سے بڑی “پاٹے خان” ٹائپ خاتون سمجھتا تھا لیکن ایک دن جب افسانہ “لحاف” کی آخری لائن پر بات کرنے کی کوشش کی تو عصمت شرما گئیں اور منٹو نے یکلخت کہا، ” یہ بھی سالی عورت نکلی”۔اتوار کے افطار ڈنر پر یہی کہنا پڑے گا کہ، “یہ بھی سالی (تمام سالیوں سے معذرت کے ساتھ) ایک پارٹی نکلی”۔

کھایا پیا کچھ نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے۔ کیپٹن صفدر نے تو بات ہی ختم کر دی کہ حکومت خود کو گرانے کے لئے کافی ہے۔ مانا کہ حکومت اپنی سیاسی قبر دونوں ہاتھوں سے کھود رہی ہے لیکن پھر آپ کیوں اکٹھے ہوئے تھے۔ مجھے تو لگتا ہے مولانا فضل الرحمان کے سلگتے ہوئے ارمانوں کو برانگیختہ کر کے انتظار کی بھٹی میں جھونکنا تھا تا کہ مولانا اس کسک سے بے قرار رہیں جو اس سہاگن کا مقدر ہے جس کا شوہر بیاہ کے تین دن بعد نوکری کے لئے پردیس چلا جاتا ہے اور سہاگن کو ماں باپ کی خدمت کے لئے چھوڑ جاتا ہے۔ یا پھر اس افطار پارٹی کا مقصد مریم اور بلاول کو ملوانا تھا جو آگے چل کر کبھی حلیف اور کبھی حریف ثابت ہوں گے اور عوام کے جذبات کے ساتھ ٹیبل ٹینس کھیلیں گے۔

بلاول اور حمزہ دونوں پارٹیوں کے شوقین ہیں۔ حمزہ تو اتنے جذباتی ہیں کہ ایک غیر ملکی خاتون کے قرب کی خاطر نوٹوں کا بیگ اس کے گیٹ پر جلا آئے تھے اور بلاول جب بھی لاہور آ تے ہیں سلمان تاثیر کے لڑکوں کے ساتھ پارٹی ضرور کرتے ہیں۔ دونوں مریم کے ساتھ ان چھوٹے کزنز کی طرح بیٹھے تھے جن کے سارے ڈرامے، شغل، شرارت اور آزادی کا اظہار بڑی کزن کی منصوبہ سازی کا محتاج ہے۔ خود زرداری صاحب یوں بیٹھے تھے جیسے بچے کو پہلی بار بورڈ کا امتحان دلوانے لائے ہوں اور کہہ رہے ہوں، “بس جناب ہمارا تو اب چل چلاؤ ہے۔ اگر بچہ پڑھ لکھ جائے گا تو کچھ بن جائے گا ورنہ دھکے ہی کھائے گا”۔

خاقان عباسی یوں سپاٹ تھے جیسے کسی پرانے دوست کی شادی میں نیوتا دینے آئے ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے سارا دن عوام کو ہاتھی کے پاؤں سے باندھ کر رکھنا تھا تو عوامی مسائل پر ہی دو فقرے بول دیے ہوتے کہ مہنگائی، ڈالر کی اڑان، ہسپتالوں کی نجکاری نہیں کرنے دیں گے وغیرہ کچھ تو کہتے۔ عوام آپ سے پوچھ رہے تھے کہ “کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہو گی”۔

کون کم بخت آپ سے کسی اچھے کی امید رکھتا ہے کہ آپ عوام کو کوئی فائدہ پہنچائیں لیکن ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے اگر آپ سیاست میں ہولی کھیل ہی رہے ہیں تو عوام کے لئے بھی بات کرتے۔ فردوس عاشق اعوان درست کہتی ہیں کہ آپ ابا بچاؤ مہم پر نکلے ہیں حالانکہ آپ لوگوں کے ابے تو بچ ہی جائیں گے کیونکہ چیئرمین نیب نے بھی اپنی صفائی میں تقریریں شروع کر دیں ہیں کیونکہ تقریر کی لذت تفکر اور تدبر میں کہاں۔ واہ واہ کروانے کی لذت خاموش رہ کر کام کرنے میں کہاں۔ آپ کروڑوں کے وکیل کر کے چھوٹ جائیں گے کیونکہ نیب کے پاس تو وکیل ہی کم پیسے لینے والے ہیں۔

اب چیئرمین کو یہ کون سمجھائے کہ بھائی مسئلہ کچھ ثابت کرنے یا نہ کرنے کا تھا ہی نہیں ورنہ نواز شریف ایک اتنے کمزور کیس میں حکومت سے جاتا کہ بیٹے سے تنخواہ لے سکتا تھا اور نہیں لی اور بتایا بھی نہیں کہ جی میں تنخواہ نہیں لے رہا۔ سب تماشا تھا اور چیئرمین صاحب آپ اس تماشے کا حصہ بنے۔ یاد ہے جب نواز شریف کی جائیدادیں نکال دیں تھیں آپ نے بھارت میں۔ حضور ! ایک بھی کیس ثابت نہیں کر سکے آپ۔ تماشا یہ ہے کہ پچھلے دنوں نعیم بخاری صاحب کی خدمات حاصل کیں کیسوں میں مدد کے لئے۔ بخاری صاحب نے گندے لطیفے سنا کر آپ کو محظوظ ضرور کیا ہو گا لیکن بہت محنتی ہونے کے باوجود آپ کے کسی کام نہیں آ ئے البتہ آپ کی جانبداری سامنے آ گئی کہ حکومتی پارٹی کے ایک بندے سے اپوزیشن کے خلاف مدد لی۔

ادھر حکومت نے بھی اس افطار پارٹی پر اتنا رونا دھونا کیا کہ خدا کی پناہ ! انہیں ایک ہی راگ الاپنا آتا ہے کہ چور اکٹھے ہو گئے، لوٹ کر کھا گئے، پچھلی حکومتوں کا گند صاف کر رہے ہیں، تیس برس کی کرپشن کا صفایا کر رہے ہیں۔ کچھ جعلی تبدیلی کے بھوکوں اور تنگ نظر سیاسی فدائین کی جہالت کے بل بوتے پر آپ ناچتے ناچتے حکومت میں آ تو گئے لیکن آپ سوائے بڑھک بازی اور مخالفین پر تبرے بھیجنے کے کچھ نہیں کر سکے۔ “میں اس قوم سے پیسے اکٹھے کر کے دکھاؤں گا “۔

خان صاحب خیرات مانگنے والی نفسیات سے باہر آئیں اور یہ بتائیں کہ اپنے وسائل کو کیسے استعمال کریں گے۔ پندرہ ارب روپے سمندر میں تو نہیں جھونکتے رہیں گے۔ سیاحت کی ترویج کا بیڑا اٹھایا لیکن غیر ملکی سیاحوں کو ریاستی ادارے ہی بہت ستاتے ہیں۔ ریلوے میں آپ نے شیخ رشید جیسا اسطخدوس بٹھایا ہوا ہے جسے یہ نہیں پتہ کہ مال گاڑیاں منافع دیتی ہیں یا مسافر۔ اسے یہ پتہ نہیں کہ مال گاڑیاں کراچی سے چلتی ہیں تو تین دن بعد لاہور کیوں پہنچتی ہیں۔ اس موٹی عقل کو یہ نہیں پتہ کہ انتیس مسافروں کے لئے ٹرین نہیں چلانی۔ اس بغلول کو یہ نہیں پتہ کہ ٹرینوں کے ٹائم کو فالو نہ کرنے سے ایک ایک لوکو موٹیو (انجن) کروڑوں روپے کا نقصان کرتا ہے۔

فرماتے ہیں پانچ سے چھ مہینے میں حالات ٹھک ہوجائیں گے۔ کیمرہ کسی کا، محفل کسی کی، پوچھنے والا کوئی ہے نہیں اور جھوٹ کسی کی ماں جہیز میں تو لائی نہیں لہذا جتنا چاہے بولو۔ یہ افطار پارٹیاں چلتی رہیں گی کیونکہ اپوزیشن والے ابھی عوام کا گلا گھٹنے کا انتظار کریں گے اور جب چیخیں نکلنا شروع ہونگی تو ہمارے نئے مسیحا مریم نواز اور بلاول بھٹو ہماری تقدیر بدلنے اور ظالم حکمرانوں سے نجات دلانے آگے آ جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سارے کھلواڑ نے جو پانامہ سے شروع ہوا، مریم نواز کے لیڈر بننے کی راہ ہموار کر دینی ہے  اور اب باریاں لگانے والوں میں زین قریشی، علی ترین، قادر گیلانی بھی شامل ہونگے۔ آپ چاہے بھلا سمجھیں یا برا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).