سب گول مال ہے


سٹوپڈ، مورن، بے وقوف، احمق اسی طرح کے کئی اور نام۔ آخر یہ الفاظ کہاں سے آئے اس کی تاریخ کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہوگا۔ سٹوپڈٹی پر بہت کم لوگوں نے لکھا ہے۔ اب تک غالباً سات سے آٹھ کتب ہی لکھی گئی ہوں گی۔ مگر اس کی خاطر خواہ تعریف کوئی نہیں کر پایا۔ ہاں مگر ہم یہاں مختلف لوگوں کے خیالات جان سکتے ہیں۔ اور شاید اپنے طور کچھ جان پائیں کہ سٹوپڈٹی کیا ہے۔

بعض لوگوں کو خیال ہے کہ یہ عقل کی ابتدا سے پہلے کا سفر ہے۔ اگر انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو انسان اپنی ابتدا میں جنگلوں میں رہتا تھا۔ وہ لباس، آگ اور زبان اور کئی اور دوسری اشیاء کے استعمال سے ناواقف تھا۔ یہی سٹوپڈٹی کا دور تھا۔ اس میں انسان کا آئی۔ کیو لیول کم تھا۔ کہا جاتا ہے کہ 0۔ 25 تک کے آئی۔ کیو لیول والے لوگ سٹوپڈ ہوتے ہیں۔ اس میں چھوٹے بچوں کا شمار خاص طور پر آتا ہے۔ وہ کسی بات کو گہرائی تک نہیں سمجھ سکتے۔ آگ کی گرمی اور حرارت سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ زندگی کو پیش آ سکنے والے خطرات سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اسی لئے بچوں کو ایک خاص عمر تک نگہداشت کے لئے کسی نہ کسی کی ضرورت ہوتی ہے۔

بعض بڑی عمر کے لوگ جسمانی طور پر نشونما نما پا لینے کے باوجود دماغی طور پر میچور نہیں ہوتے۔ اس کا اندازہ ان کے سٹوپڈ بی ہیویر سے لگایا جاتا ہے۔ ایسے لوگ ضد پر آ جائیں تو کھیلنے کے لئے چاند تک کا مطالبہ کر بیٹھیں۔ اور اگر مان جانے پر آئیں تا جھوٹی انا کے کھوکھلے کھلونے سے بہل جائیں۔ لکھنے والے کہتے ہیں کہ ایسے لوگ معاشرے کے پسندیدہ

لوگ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ تمام اداروں اور تمام حلقوں کے جیسے اقتدار، ٹی وی چینلز اور مارکیٹ وغیرہ کے انتہائی مرغوب ہوتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مارکیٹ چلتی ہی ان سٹوپڈ لوگوں کی وجہ سے ہے۔ نہ صرف مارکیٹ ان پر چلتی ہے بلکہ اپنی بقا کے لئے وہ مزید سٹوپڈ پیدا کرتی رہتی ہے۔

اس میں پیداوار کی برانڈز سیل ایک اہم مثال ہے۔ اور ٹی وی چینلز پر کئی پروگرامز سٹوپڈ پیدا کرنے کی فیکٹریاں ہیں۔

لہذا ہر طرف سے سازگار ماحول اور مناسب مواد کی وجہ سے سٹوپڈز کی اکثریت رہتی ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وسائل اور ذرائع کا بے دریغ استعمال بھی سٹوپڈٹی ہے۔

گلوبل وارمنگ بھی سٹوپڈٹی کا پیدا کردہ مسئلہ ہے۔ جس کی وجہ سے قدرتی آفات کا خطرہ الگ سے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ بعض لوگ ماضی میں ہونے والی جنگوں کا مورد بھی سٹوپڈٹی کو ٹہراتے ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق اپنے اپنے بیلیف سسٹم کی بقاء پر کٹ مرنے والے بھی سٹوپڈ ہیں۔

اور بعض لوگ اس شخص کو ایڈیٹ اور سٹوپڈ گردانتے ہیں جو روٹین کے کام پر لگا ہوا ہے۔ روز آفس جاتا ہے، کام کرتا ہے، شام کو گھر آتا ہے، سوتا ہے اور اگلے دن پھر آفس جانے کو تیار رہتا ہے۔

جبکہ بعض کا خیال ہے کہ کسی بھی چیز کے پھیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جانے والا سٹوپڈ ہے۔ اور وہی کامیاب انسان ہے۔ بڑے بڑے بزنس مین اور بڑے مشہور اداکار و فنکار اسی سٹوپڈٹی کے مرہون منت ہیں۔

بعض لکھتے ہیں کہ ہم نے تہذیب سیکھ کر اپنے اندر کے سٹوپڈ کو قید کر دیا ہے یا مار دیا ہے۔

ہم نے سٹوپڈٹی کو کنٹرول کرنے کے لئے سوشالوجی جیسے مضامین بنا لئے ہیں۔

بعض لوگ سٹوپڈٹی کو ایک نعمت قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق سٹوپڈ لوگوں کا دماغ سادہ ہوتا ہے اور ایک سادہ دماغ کے لئے چیزیں سادہ ہوتی ہیں۔ جو باعث سکون ہے۔

ٹریور اسٹرانگ اپنی کتاب ”stop thinking“ میں لکھتا ہے کہ اپنے دماغ کو خالی اور سادہ رکھیں۔ اس کے لئے وہ نہایت دلچسپ مشورے دیتا ہے۔ جیسے لکھتا ہے کہ آپ کبھی بھی نہیں ہاریں گے اگر کوئی کھیل نہیں کھیلیں گے۔ لہذا کسی کھیل میں حصہ نہ لیں تاکہ آپ کبھی ہار نہ سکیں۔ ایک جگہ کچھ اس طرح کہتا ہے کہ آپ اپنی زندگی میں کسی بھی قسم کی کمی، کوتاہی یا ناکامی کا الزام دوسروں پر ڈال دیں۔ جیسے کہ کبھی آپ کی ٹرین چھوٹ جائے تو اس کا الزام ریئل اسٹیٹ پر لگا دیں جنھوں نے گھر ریلوے سٹیشن سے دور بنایا یا پھر جوتے بنانے والی فیکٹری پر کہ انھوں نے جوتا ایسا بنایا کہ آپ تیز قدمی سے ٹرین نہ پکڑ سکے۔

اپنی ایک اور کتاب ”Get stupid“ میں وہ دماغ کے ہونے کو ایک تکلیف دہ بات لکھتا ہے۔ اس کے مطابق دماغ اور ذہانت ہی انسان کو مشکلات میں ڈالتے ہیں نہ کہ سٹوپڈٹی۔

حکومت اور طاقت بھی سٹوپڈٹی کا ساتھ دیتی ہے۔ اور یوں سٹوپڈ راج کرتے ہیں۔

آئن سٹائن کہتا ہے،

”دو ہی چیزیں لا متناہی ہیں ایک کائنات اور دوسری انسان کی سٹوپڈ ٹی اور میں کائنات کے بارے میں مشکوک ہوں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).