مرگ پر شادیانے بجانے والے


کل پنجاب کے شہر لالہ موسی میں قمر زمان کائرہ صاحب کا نوجوان بیٹا اسامہ کائرہ اپنے دوست حمزہ بٹ کے ساتھ روڈ ایکسڈنٹ میں شہید ہو گیا۔

پاکستانی قوم جو نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی تصاویر پوسٹ کرتے نہ تھکتی تھی اس افسوسناک حادثہ پر بالکل عجیب انداز میں اپنے اپنے تبصرے کر رہی ہے۔ پاکستان کی اکثریت اس حادثے پر شدید صدمے کا شکار ہے۔ ہر بال بچے دار انسان کا دل کانپ رہا ہے، ماہ صیام میں ہر انسان کے ہونٹوں پر اپنی آل ولاد، دوستوں اور رشتہ داروں کے علاوہ ہر انسان کی سلامتی کی دعائیں ہیں۔ مگر وہیں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کرپشن، لوٹ مار اور بدامنی کا اسٹیج سجائے اپنی جھوٹی انا، محرومی، سیاسی بغض، ذاتی عداوت اور صوبائیت کو لے کر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔

ہم دیہاتی لوگ ہیں، ہمارا تو دکھ کا انداز ہی الگ ہے۔ ہم نے بچپن میں اکثر یہ دیکھا کہ جب ہمارا کوئی جانور فوت ہو جاتا تو ہمارے گھر میں سوگ کا سماع ہوتا۔ والد والدہ کھانا نہ کھاتے، ہمارے بچپن میں گلی محلے یا گاؤں میں فوتگی کی صورت میں چالیس روز تک کسی گھر میں ٹی وی ریڈیو یا ٹیب نہ چلایا جاتا۔ اس دوران طے شدہ شادیوں پر سادگی برتی جاتی، مگر اب ہم جیسے پرانے دور کے لوگ جاہل اور فرسودہ سوچ کے انسان گردانے جاتے ہیں۔

اعلی تعلیم یافتہ، سوشل میڈیا، کمپیوٹر، آئی ٹی کے ماہر نوجوانوں کا ہم دیہاتیوں کا پالتو جانور کی فوتگی پر دکھ سے آنکھیں بھیگو لینا یقینا ان کی سمجھ سے باہر ہے۔

خدا بخشے میری والدہ کو، میں نے ادب میوزک اور سیاست کی ابتدائی تعلیم ان کی آغوش میں حاصل کی، مجھے اکثر وہ بتایا کرتیں کہ جب شہید ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو چالیس روز تک ہمارے گھر میں ایسا سماں تھا جیسے ہمارا کوئی اپنا، کوئی بہت قریبی مارا گیا ہو، اٹھارہ سال تک روز یہ کہانی سنانے والی والدہ کو جب میں نے ضیاء کی فوتگی پر ہچکیوں سے روتے دیکھا تو حیرت سے اُنکا منہ دیکھتا رہ گیا۔ مجھے یاد ہے میں نے ان سے پوچھا بھی تھا کہ ”یہ وہی ضیاء ہے جس نے بھٹو کو پھانسی دی تھی اب اس کی فوتگی پر کیوں رو رہی ہیں۔ ؟

انھوں نے مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا تھا کہ ”دشمن کے مرنے پر خوشی نہ مناؤ کہ سجناں نے بھی مر جانا ہے“

مگر کل سے ملک میں ان نوجوانوں کی شہادت کو لے کر جاری اس گھٹیا کمپین کو مجھ جیسا جاہل نہ سمجھ پایا اور نہ سمجھنا چاہتا ہے۔

کوئی دوست یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ کرپشن کرنے والوں کا ایسا حال ہونا اچھا ہے تا کہ دیگر لوگ عبرت کر سکیں۔ چند ایک اسی بات کو ذرا گھما پھرا کر فرما رہے ہیں کہ ”شہید دو نوجوان ہوئے مگر ایک کا افسوس اور ذکر زیادہ کیا جا رہا ہے۔ “

میں اُن بھائیوں سے کہتا چاہتا ہوں کہ ہمیں دونوں کا شدید افسوس ہے۔ دیکھیں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ شہر میں ہر روز کوئی نہ کوئی فوت ہوتا ہے، یقینا ان کا سن کر دل رنجیدہ اور چند لمحوں کو دل اُداس ہوتا ہے۔ ہم ان کے لیے بخشش کی دعا بھی کرتے ہیں، مگر جیسے آپ اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں، اگر وہ محلے دار یا رشتہ دار ہوتا ہے تو اس کا ہم اپنے آفس، گھر، بازار محلے میں زیادہ ذکر کرتے ہیں کیونکہ اس کے ساتھ یا اُس کے بڑوں کے ساتھ چند دن، چند لمحے گزرے ہوتے ہیں تو انسیت زیادہ ہو جاتی ہے۔

بس اتنی سی بات ہے۔ یہ دونوں بچے اپنے والدین کے شہزادے تھے، حادثاتی موت بھی شہادت کی ایک قسم ہے اللہ پاک دونوں کے درجات بلند فرمائے اور والدین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ لیکن اس دعا کے ساتھ ساتھ یہ دعا مانگنا زیادہ ضروری ہے کہ اللہ پاک ہمیں ایسا نرم دل عطا فرمائے جو انسان تو انسان، جانوروں اور درختوں کے درد کا بھی احساس کرے۔ آمین ثم آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).