آئی ایم ایف کے سونامی سے اچھائی نکل سکتی ہے


آئی ایم ایف کے آنے والے سونامی کی ابتدائی ہوائیں چلتے ہی روپیہ ردی کاغذ کے پرزوں کی طرح اڑنا شروع ہوگیا ہے اور کسی کے ہاتھ آتا نظر نہیں آرہا۔ اس کے ساتھ اب مہنگائی کا ایک بہت بڑا طوفان اٹھے گا جو مڈل کلاس کے لاکھوں افرادکو خط غربت سے نیچے پٹخ دے گا۔ غریب عوام تو مشکل حالات کے عادی ہو چکے ہیں اب تھپیڑے فیکٹری مزدوروں، ملازموں، چھوٹے کسانوں، دوکان داروں، درمیانہ درجہ کے تجارت پیشہ اور متوسط تنخواہ دار طبقات کو زیادہ شدت سے پڑیں گے۔

عالمی حالات بھی ابھی پاکستان کے خلاف ہی جائیں گے۔ امریکہ ایران تنازعہ کی وجہ سے تیل کی قیمتیں اور اوپر جائیں گی۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر مزیدبوجھ پڑے گا۔ اور اگریہ جنگ چھڑ گئی یا پھر گوریلا جھڑپیں اوراکا دکا پٹاخے بھی چلنا شروع ہو گئے تو میدان جنگ کے اثرات پاکستان تک بھی آئیں گے۔ کچھ نہ کچھ ہمارے علاقے بھی متاثر ہوں گے۔ پراکسی وار ہمارے ملک میں بھی لڑی جاے گی۔ جس سے کمزور معیشت اور مشکل کا شکار ہوگی۔

زرتاج گل کے بقول نیک حکمرانوں کے آنے کی وجہ سے اللہ کی رحمت کی بارشیں گندم کی پیداوار کو فی ایکڑ تقریباً بیس من کا نقصان پہنچا چکی ہیں۔ حکومت نے کسانوں کو کسی قسم کا کوئی ریلیف دینے کی قسم کھا رکھی ہے۔ کسان برے حال میں ہے۔ اگلی فصل کے لئے بجلی کی ضرورت بہت زیادہ ہوتی ہے جو کہ مہنگی ہو چکی ہے۔ کھاد پر سبسڈی ختم کر دی گئی ہے۔ پچھلے سال کا چاول گوداموں میں پڑا ہوا ہے اس فصل کا انجام کیا ہوگا، ابھی سے نظر آ رہا ہے۔ حکومت وقت نے تو سب کچھ اللہ اور تسبیح کے تیس دانوں کے ہیر پھیر پر ہی چھوڑرکھا ہے۔

ؑجس کسی نے بھی انگلش مصنف چارلس ڈکن (Charles Dickens) کو پڑھا ہوا ہے اس نے محسوس کیا ہوگا کہ وہ کیسے خوفناک اور عجیب کردار تخلیق کرتا ہے۔ اس کا ایک کردار تیم بچہ اولیور ٹوسٹ (Oliver Twist) ہے جس کے ساتھ ظالم سماج انتہائی بدسلوکی کرتا ہے یتیم خانے میں اس کو کھانامانگنے پر سزا دی جاتی ہے۔ ایک دوسرے ناول کا مرکزی کردار انیزر سروج (Ebenezer Scrooge) نامی سود خور ہے جو انتہائی لالچی ہے اور اس میں انسانیت ذرا برابرنہیں پائی جاتی۔ چارلس ڈکنز یورپ کے صنعتی انقلاب کی تبدیلیوں کے دنوں میں موجود تھا اور وہ اس دور کی زیادتیوں کا چشم دید گواہ تھا۔ اس کے کردار اس دور کے ظالمانہ رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے ناول ان مشکل حالات کو بیان کرتے ہیں جب مائیں کارخانوں میں کام کرنے کے لئے اپنے بچوں کو نشہ دے کر سلا دیا کرتی تھیں۔

صنعتی انقلاب نے سرمایہ داری نظام کی راہیں ہموار کیں۔ اورسامراجیت کو بنیادیں مہیا کیں۔ صنعتی انقلاب نے روایتی پیداوار اور منڈی کی معیشت کو ختم کرکے بڑی بڑی فیکٹریاں اور ان کے تیار شدہ سامان سے بازار سجا دیے۔ اس سے صدیوں پرانے سماجی طور پر جڑے ہوے طبقات کی جگہ پر معاشرہ میں معاشی ناہمواری کی بنیاد پر نئی تقسیم شروع ہو گئی۔ یورپ میں اسی تبدیلی کی وجہ سے پرانے لینڈ لارڈز اور چرچ کی اہمیت بھی کم ہوتی گئی۔ اور بادشایت کمزور ہوناشروع ہو گئی۔

اس انقلاب سے معاشرہ میں نئے طبقات پیدا ہوے۔ غریب اور امیر، طاقتوراور کمزور، صنعتکاراور مزدور۔ ان طبقات میں مفادات کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوے۔ مفادات کی اس لڑائی میں مزدور طبقہ پس رہا تھا اور سرمایہ دار اپنی دولت کے بل بوتے پر امیر سے امیر تر ہوتے جارہے تھے۔

اس نئے ابھرتے ہوے صنعتی معاشرہ میں سب سے اونچا درجہ اپر کلاس کا تھا جو کہ امیر، پڑھے لکھے اور فیکٹریوں کے مالک تھے۔ وہ اپنے ہاتھ سے کام نہیں کرتے تھے۔ ان کے پاس وسیع دولت تھی اور عیاشی کے ساماں بھی۔

اس سے دوسری طرف لوئر کلاس تھی جو کہ مزدور تھے۔ ان کے پاس کوئی ملکیت ہوتی تھی اور نہ ہی دولت۔ ان کا گزارہ صرف مزدوری پر تھا۔ اگر نوکری گئی تو سب کچھ گیا۔

اور ایک مڈل کلاس تھی جو کہ پڑھے لکھے ہنر مندافراد، بیوروکریسی، ملازم، کاروباری حضرات پر مشتمل تھی۔ ان کے پاس محنت سے کمائی ہوئی تھوڑی سی دولت اوروہ کچھ جائیداد کے مالک بھی ہوتے تھے۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس طبقہ کی تعداد بڑھتی گئی۔

ان انتہائی برے حالات کے بارے میں ڈکنزاپنے ناول

A Tale of two cities

کاآغاز کرتے ہوے کہتا ہے

”یہ بہترین وقت تھا، یہی بد ترین وقت تھا۔ یہ عقل کا دور تھا یہی بیوقوفی کا دور تھا۔ یہ روشنی کا موسم تھا، یہی اندھیروں کا موسم تھا۔ یہاں امیدوں کے چشمے پھوٹ رہے تھے، اورنا امیدی کی سردیاں تھیں۔ ہمارے سامنے سب کچھ تھا، ہمارے سامنے کچھ بھی نہیں تھا۔ ہم سب سیدھے جنت کی طرف جا رہے تھے، ہم سیدھے متضاد سمت میں جارہے تھے“۔ مختصراً وہ دور آج کے دور جیسا ہی تھا۔

یہ مختلف نئے طبقات جو معاشرہ میں صنعتی انقلاب کی وجہ سے پیدا ہوے، ان کے درمیان ہونے والی کھینچا تانی اور سیاسی کشمکش یورپ میں وسیع تبدیلیوں کا باعث بنی۔ کارل مارکس کے بقول طبقاتی جدوجہد ہی بڑے معاشرہ میں وسیع سماجی اور سیاسی تبدیلی کی بنیادی وجہ اورعملی اصول ہے۔

پاکستان میں صنعتی ترقی کا آغاز ایوب خاں کے دور میں ہوا اور ساتھ ہی یہ تمام طبقات پیدا ہوے اور ان کے درمیان کشمکش بھی شروع ہو گئی۔ مزدوروں، کسانوں اور طلباء میں نظر یاتی تحریکوں کو تقویت ملی۔ صنعتی انقلاب کے لئے زرعی اصلاحات اورمذہب کی اجارہ داری ختم کرنا بھی اہم ہوتا ہے۔ اس دور میں ان کاموں کا بھی آغاز ہوا۔ مذہبی اصلاحات صرف اس دور میں ہوئیں۔ اس کے بعد پھر کبھی کوئی حکومت اس شعبہ میں مداخلت کرنے کی ہمت نہ کرسکی۔ 1961 کے فیملی لاز کی تمام مولویوں نے مخالفت کی لیکن نافذکر دیے گئے۔

صنعتی و معاشرتی ترقی کوبھٹو صا حب کی قومیائے جانے کی پالیسی نے دوسرے تمام انقلابات کے ساتھ ”بحیرہ عرب میں غرق دیا“۔ (بھٹو صاحب کے الفاظ کیمونزم کے بارے میں ) ۔ اس کے ساتھ 74 سے 77 کے درمیان ان کی مذہبی انتہا پسندوں کی ہاتھوں پسپائی کی وجہ سے مولویوں کی حکومتوں کو بلیک میل کرنے کی صلاحیت کودوبارہ تقویت ملی۔ اس طرح ہمارا ملک دوبارہ قدیم مذہبی ریاست کی شکل میں ڈھلنا شروع ہوگیا۔ اور ملک میں جدیدیت کی تبدیلی کے آگے بندباندھ دیا گیا۔

اب ملک کے حالات انتہائی خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ معیشت لڑکھڑارہی ہے۔ غربت بڑھے گی۔ مزدور طبقہ کی اجرت کم ہوگی۔ بیروز گاری بڑھے گی۔ ملازمین کی تنخواہ روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے تقریباًآدھی رہ جاے گی۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق زرعی شعبہ پر سنٹرل ایکسائز ڈیوٹی کا نفاذ، پبلک سیکٹر کے ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات میں کمی، گیس اور بجلی پر سبسڈی کا اختتام، بینکوں میں شرح سود کا اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ دوسری شرائط میں ڈیفنس کے بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات بند کرنے اور وفاقی وزارتوں کے ساتھ سول محکمہ جات میں بھی ان ا خراجات میں کمی کی شرط لگائی گئی ہے۔

اب ملک کو سوچنا پڑے گا۔ اب مڈل کلاس کے لاکھوں افراد کے لئے زندگی مزید مشکل ہو جاے گی۔ اب طبقاتی کھنچاؤ بڑھے گا۔ یہ طبقاتی جنگ معاشرہ میں وسیع سماجی اور سیاسی تبدیلی کی بنیادی وجہ بن سکتی ہے۔ اس برائی سے بھلائی نکل سکتی ہے۔ یہ برا وقت ہے، یہی بھلا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ اندھیروں کا موسم ہے اس سے روشنی پھوٹ سکتی ہے۔ نا امیدی ہی نا امیدی ہے، امید کی کرن نظر آسکتی ہے۔ ہمارے سامنے کچھ نہیں ہے، ہمارے سامنے بہت کچھ آسکتا ہے۔

ہماری آنکھوں کے سامنے دوزخ کی گرمیاں ہیں، یہ جنت بن سکتی ہیں۔ یورپ کے حالات بھی ان ہی مشکلات سے نکل کر بہتر ہوئے تھے۔ اس کی مثال کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنا پڑے گا۔ غیر ترقیاتی اخرا جات کنٹرول کرنا اب مجبوری ہے۔ جرمن نے پورے یورپ میں تباہی مچادی۔ بعدمیں خود بھی تباہ ہو گیا۔ پھر سمجھ آئی کہ ہمسایوں سے لڑائی ختم کر کے امن سے ہی ترقی حاصل کی جا سکتی ہے۔ فوجی اخرا جات صرف اسی صورت میں کم ہو سکتے ہیں کہ ہمسایو ں سے معاندانہ رویہ بدلا جاے۔ یورپ نے چرچ کو ویٹیکن میں بند کر کے اس کی اجارہ داری ختم کر دی اور مختلف مذاہب سے سجا ہو اسیکولر معاشرہ تشکیل دیا۔ ہر کوئی اپنے مذہب پر عمل کرنے میں آزاد لیکن کوئی کسی کو پابند نہیں کر سکتا کہ وہ اس کی مرضی کے مذہب پر عمل کرے۔ لا اکراہ فی الدین۔ ہمیں بھی مذہبی انتہا پسندی ختم کرنا پڑے گی۔ جمہوریت

طبقاتی جدوجہد کی معراج ہے۔ ہمارے عوام کوبھی یہ حق ملنا چاہیے۔ اب اگر نہ دیا گیا تو عوام زبر دستی چھین لیں گے۔ اس وقت سے بچنا چاہیے جب فتوراس حد تک پہنچ جاے گا۔ جاگیر داری بھی جمہوری جدو جہد کے رستے کی دیوار ہے۔ اب اس بارے میں سو چنا پڑے گا۔ لینڈ ریفارمز لازمی ہیں۔

صنعتی ترقی کی راہ اپنانے کے لئے پہلے زرعی اصلاحات کرنا پڑیں گی۔ صنعتی ترقی ہی مشکلات کا حل ہے۔ جمہوریت ہی ملک کو سب کے لئے قابل قبول بنا سکتی ہے۔ صنعتیں چھوٹی اور بڑی ہر سطح پر اور جمہوریت بنیادی اور مرکزی ہر جگہ پر۔ طبقاتی جدوجہد کو اچھائی کی طرف موڑنے کے لئے یہ سب ضروری ہے۔ سب فوراً ممکن نہیں، آغاز تو کریں۔ یہ دور اگر چہ بیوقوفوں کا ہے لیکن اس میں عقل سے کام لے کر ہی کامیابی سے پار اترا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).