نام بڑے اور درشن چھوٹے


لفظ ”بیرو“ کا مطلب ہے کام اور ”کریسی“ یعنی ”کرنا“۔ گویا ان سرکاری افسران کو ”کام کرنے“ کے لئے عہدہ دیا جاتا ہے۔ مگر وطن عزیز کی بیروکریسی ہمارے مسئلے حل کرنے میں مخلص نہیں ہے۔ وہ ٹال مٹول اور حیلے بہانے سے کام لے رہی ہے۔ مثال کے طور پر محکمہ خصوصی تعلیم کے ڈپٹی سیکریٹری صاحب کی تقریر مجھے منہ زبانی یاد ہوگئی ہے۔ ہر تقریب میں وہی بات دہرادیتے ہیں کہ ہم بہت کام کر رہے ہیں۔ کسی اور صوبے کے پاس ڈس ایبلٹی لاء نہیں ہے ہمارے پاس ہے۔

ہم ایسے ایکٹ کا کیا کریں جو ہمارا حق نہیں دے سکتا؟ فرماتے ہیں کہ خصوصی افراد کی کل تعداد معلوم نہیں ہے ان کی ریجسٹریشن ہوگی پھر شناختی کارڈز بنیں گے پھر صحت کارڈز بنیں گے پھر تعداد کے مطابق اسامیاں نکالی جائیں گی، ان کے لئے ایک ایڈوائزری کاونسل بنے گی جو حکومت کو بتائے گی کہ اتنے پڑھے لکھے خصوصی افراد ہیں اور پھر اس کے بعد ملازمت ملے گی۔

اس سب میں کتنے سال لگیں گے؟ کیونکہ ان کا یہ بیان 7 ماہ پہلے کا ہے اور اب تک کچھ نہیں ہوا۔

فی الحال ان کے پاس جو ماسٹر پلان ہے وہ یہ ہے کہ نجی کمپنیوں پر زور ڈال کر انہیں اپنے ادارے کے عملے میں کم از کم 5 خصوصی افراد رکھنے پر مجبور کیا جائے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا خصوصی افراد نجی کمپنیوں کی ذمہ داری ہیں؟ کیونکہ ہوتا یہ کہ نجی کمپنی کو تو ہرحال میں پرفارمنس چاہیے وہ کسی بھی جسمانی کمزوری پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ورنہ ان کا نقصان ہوجاتا ہے۔ وہ خصوصی افراد سے بھی نارمل لوگوں کی طرح صبح 8 سے شام 4 بجے تک کام چاہتے ہیں اور تنخواہ مبلغ 10 سے 12 ہزار ہی ہوتی ہے۔

مجھے صرف یہ بتادیا جائے کہ ایک شخص جو جسمانی معذوری کا شکار ہے وہ بغیر اپنی جگہ سے ہلے 8 گھنٹے کام کیسے کرسکے گا؟ اور بالفرض اگر کسی نابینا شخص سے کوئی رپورٹ تیار کرنے میں ایک معمولی نقطے کی بھی غلطی ہوجائے یا پھر قوت سماعت و گویائی سے محروم چپڑاسی (خصوصی افراد کو نجی کمپنیوں میں ایسی ہی نوکریاں دی جاتی ہیں ) سے کسی گاڑی کا ہارن یا صاحب کے بلاوے کی گھنٹی سننے میں کوتاہی ہوجائے تو اسے اس کا پیدائشی قصور قرار دے کر نوکری سے برخاست کردیا جاتا ہے۔ جب دلیل پیش کی جائے تو ایک سدابہار حل پیش کیاجاتا ہے کہ ”مت کرو کام، کس نے کہا ہے خواری کرو، جب نہیں ہوتا کام تو گھر بیٹھو“۔ سبحان اللہ۔

گلہ نجی کمپنیوں سے نہیں، کیونکہ خصوصی افراد ان کی ذمہ داری نہیں۔ اور نا ہی اس ملک کے مخیر حضرات کی ذمہ داری ہیں جو اپنے عطیات سے اس طبقے کا بوجھ اٹھائیں۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس طبقے کو بوجھ سمجھا ہی نہ جائے یہ اپنی بقا کے اسباب خود پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بس ایک موقع درکار ہے۔ ملک کی کل آبادی کا 14 فیصد یہ لوگ ریاست سے اپنا جائز حق مانگنے میں حق بجانب ہیں۔ خصوصی افراد کی ایک بڑی تعداد اعلی تعلیم یافتہ اور کئی اہنار سے آراستہ ہے جو ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔

14 فیصد کی بڑی آبادی کو ملکی ورک فورس کی دوڑ سے باہر کرکے حکومت اپنے جی ڈی پی کا بہت بڑا نقصان کر رہی ہے۔ ریاست مدینہ کے حکمران کمزور طبقے کو اوپر اٹھانے اور ان کی ذمہ داری لینے کی باتیں تو بہت کرتی ہے مگر اس پر عمل نظر نہیں آتا۔ حقیقت تو یہ ہے وفاق خصوصی افراد کو ان کے صوبے کی جبکہ صوبے ان کو وفاق کی ذمہ داری قراردیتے ہیں۔ شاید دونوں ہی انہیں بے کار شہری سمجھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے دونوں ہی یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ووٹ تو خصوصی افراد بھی دیتے ہیں۔

الیکشن کے روز دھوپ میں لمبی قطاروں میں انتظار کے بعد اپنی وہیل چئیرز کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ کر آپ کو ووٹ خصوصی افراد بھی دیتے ہیں۔ ان کے لئے ووٹ ڈالنے کا کوئی بندوبست کوئی خصوصی سہولت پیدا نہیں کی جاتی پھر بھی خصوصی افراد اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہیں تو کیا اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے بعد عوامی نمائندوں کا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ اپنے انہی خاص ووٹرز کے جائز مطالبات سنیں اور اپنا قومی فریضہ پورا کریں؟

سندھ کے شہری اور ووٹر کی حیثیت سے میری وزیراعلی سندھ عزت مآب سید مراد علی شاہ صاحب سے معصومانہ اپیل ہے کہ وہ مجھے ملاقات کا ایک موقع ضرور دیں تاکہ میں اپنا اور چند پڑھے لکھے خصوصی افراد کا مدعا ان کے سامنے رکھ سکوں۔ جن کی رجسٹریشن نہیں ہوئی اور شناختی کارڈز نہیں بنے وہ اپنے وقت پر بنیں گے لیکن جن کے بنے ہوئے ہیں انہیں تو ان کا جائز حق اور مقام دے جائے تا کہ وہ اپنے دم پر خود مختار اور باعزت زندگی گزارسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).