کپتان کے خلاف بہترین منصوبہ کس نے بنایا ہوا ہے؟


بلاول بھٹو نے ساری اپوزیشن بلکہ تھوڑی سی حکومت کو افطاری پر کیا بلایا۔ پی ٹی آئی میں کرنٹ ہی پھر گیا۔ یہ تھوڑی سی حکومت کا الزام بی این پی مینگل پر لگایا ہے، لگتا بھی ہے۔ بیچارے حکومت میں بیٹھے ہیں کوئی سنتا پوچھتا ہے ہی نہیں۔

اس افطاری کو لے کر وزیروں نے خوب نشانے لگائے۔ ابو بچاؤ تحریک کے طعنے بھی دیے۔ بلاول اور مریم ہی دو اپوزیشن کے لوگ تھے جو کسی بھرپور تحریک کو فوری شروع کرنے سے اب بھی گریز ہی کر رہے ہیں۔ انہی دونوں لیڈروں کے ابا جی بظاہر پی ٹی آئی حکومت نے گھیر رکھے ہیں۔

حامد میر نے ایک ٹی وی پروگرام میں شرارتی تبصرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان افطاری پر نہیں پہنچے۔ انہیں بلاول نے فون بھی کیا کہ آپ نہیں آئے تو میں افطاری نہیں کروں گا۔ اس کے باوجود وہ افطاری پر نہیں پہنچے اس کے بعد آئے۔ انہوں نے گھر پر خود مہمان بلا رکھے تھے۔

اپوزیشن پتہ کرے کہ یہ کون مہمان تھے۔ ان سے کیا باتیں ہوئیں۔ تو ایک تو جے یو آئی کہ سینیٹر طلحہ محمود تھے۔ وہی طلحہ محمود جن کا قراقرم ہمالیہ اور ہندوکش کے ہر پہاڑ پر نام لکھ رکھا ہے پتہ نہیں کس نے۔ دوسرے مہمان اویس نورانی تھے۔ اس سہ فریقی ملاقات میں حلوہ دنبہ کھجور پینڈا۔ ”بیٹھو آرام سے پہلے تسلی سے کھانا کھاتے ہیں، پھر نماز پڑھیں گے“ قسم کی باتیں ہی ہوئی ہوں گی ۔

اس وقت پاکستان میں اگر کوئی جی جان سے تحریک چلانا چاہتا ہے تو وہ مولانا فضل الرحمان ہیں۔

اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مولانا کو ان کے حلقہ اثر میں اک بہت سنجیدہ سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کے ہاتھوں وہ ڈی آئی خان بنوں ٹانک لکی میں اپنے ووٹ بنک پر پریشر محسوس کر رہے ہیں۔ اس کا ذمہ دار وہ کافی حد تک محکمہ زراعت، صنعت، تجارت و تعمیرات کو بھی سمجھتے ہیں۔

پی ٹی ایم بھی انہی کی جان کو آئی ہوئی ہے۔ منظور پشتین کو جواب کبھی کبھار ٹویٹاں والی سرکار ہی دیتی ہے۔ مولانا خاموش ہی رہتے ہیں۔ اگر غور سے دیکھیں تو پی ٹی ایم کی اصل پاور بیس وہی ہے جہاں مولانا کا اثر ہے۔ یہ اثر بھی تقریبا ایک صدی پرانا ہے۔

آج کل کپتان کی حکومت جس طرح ہچکولے لے رہی ہے۔ سب کو اس پر وٹ چڑھا ہوا ہے۔ اس دباؤ سے نکلنے کا بڑا ہی آسان سا راستہ تھا۔ فاٹا کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخاب ہو جاتا۔ پی ٹی آئی نے اکثریت لے جانی تھی۔ سب کے منہ ویسے ہی بند ہو جانے تھے جیسے مراد سعید آئی ایم ایف کے نقشہ بنا کر بند کر کے دکھاتا ہے۔

سیاست بھی کپتان نے اپنی ہی قسم کی ایجاد کر رکھی ہے تو ایسے وقت میں جب پاپولر سپورٹ ثابت کرنی تھی۔ آئینی ترمیم کروا کر الیکشن ملتوی کرانے والا کارنامہ سر انجام دے دیا۔

مولانا اگر آج میدان میں نہیں نکلتے۔ وہ اپنے مذہبی ووٹ بنک کو منتشر کر بیٹھیں گے۔ ان کے لیے یہ سیاسی بقا کا معاملہ ہے کہ وہ اس حکومت کے خلاف میدان میں نکلیں۔ جنہیں کوئی شبہ ہے ان کے سارے شک دور ہو جائیں گے جب دو کھجوریں ایک پانی کی بوتل لے کر دنیا بھر سے ( وہی آٹھ دس اضلاع کے مدارس) چنڑے اسلام آباد میں اترنا شروع ہو گئے۔

پی پی اور مسلم لیگ نون کی سیاست ہی الگ ہے۔ ان کی دنیا ہی اور ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں کئی کئی بار حکومت بنا چکی ہیں۔ یہ پاور گیم کا حصہ ہیں۔ یہ چاہیں بھی تو صرف اس بات پر کہ دونوں پارٹیوں کی قیادت جیل پہنچ چکی، اک حد سے آگے نہیں جا سکتیں۔ یہ دونوں پارٹیاں دو دو سو ارب ڈالر نکلوانے انہیں آئی ایم ایف اور ووٹر کے منہ پر مارنے کے دعوے نہیں کر سکتیں۔

انہیں کل اقتدار میں آنا ہے۔ یہ پنڈی سے جتنا مرضی لڑیں جتنا مرضی دکھی ہوئی پھر رہی ہوں۔ انہیں معلوم ہے کہ اسلام آباد وایا پنڈی ہی واحد روٹ ہے۔ اسلام آباد بیٹھ کر بھی پنڈی سے بنا کر بھی اک بے قرار سی حکومت ہی چلائی جا سکتی۔ اختیار ہو بھی تو پٹھانے خان والی بے اختیاری لگتے دیر نہیں لگتی۔

مولانا تحریک چلا سکتے ہیں۔ حکومت جام کر سکتے ہیں۔ اس حکومت کا جینا حرام کر سکتے ہیں۔ اسے گرا شاید نہیں سکتے۔ گرا صرف پی پی اور مسلم لیگ نون ہی سکتی ہیں۔ دونوں پارٹیاں تحریک نہیں چلا سکتیں۔ البتہ اگر اسمبلی سے استعفی دے دیں تو سارے لوٹے بھی ساتھ ہی مستعفی ہونے لگ جائیں گے۔ لوٹے پر لوٹا رکھ کر ہی تبدیلی کا سونامی لایا جا سکا تھا۔

یہ دونوں پارٹیاں ابھی حکومت سنبھالنے کو بھی تیار نہیں دکھائی دے رہیں۔ یہ چاہیں گی کہ سخت فیصلے پی ٹی آئی کرے۔ بجٹ بھی دیتی جائے۔ آئی ایم ایف معاہدے پر کچھ عمل درامد بھی کرے۔ اس کے بعد یہ کوئی کاکا لے کر میدان میں آئیں گی کہ ہمیں موقع ملا تو سب ٹھیک کر لیں گے۔

بلاول بھٹو کی افطار پارٹی میں ایک اچھی بات بھی ہوئی ہے۔ پی ٹی ایم نے، بی این پی مینگل نے، آئین کی سپورٹ کی ہے، سول رٹ منوانے کی بات کی ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے۔ غم کی بات میاں افتخار نے کی ہے کہ یہ جو بوری (کپتان) سامنے پڑی ہے۔ اس سے ہماری کیا لڑائی ہے اس کے پیچھے جو بیٹھا ہے لڑائی اس سے ہے۔

پیچھے پتہ نہیں کون بیٹھا ہے۔ مجھے تو وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ہی محسوس ہوئے ہیں۔ میاں افتخار، حاصل بزنجو، محمود خان کے نمائندے نے یہی کہا کہ ہم آئین پر عمل کرائیں گے کوئی غیر آئینی عمل نہیں ہونے دیں گے۔ جتنی مرضی پنجاب پولیس لے کر آ جاؤ اس کی مرضی نہیں چلنے دیں گے۔ آپ پنجاب پولیس ہی سمجھیں۔

تحریک کا ماحول بن رہا ہے۔ کارکنوں کا ریلا نکل نہ پڑے۔ اس میں ٹانگ پی پی اور نون لیگ نے ہی پھنسا رکھی ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں چاہتی ہیں کہ کپتان کو لانے والے ابھی ذرا مزہ لے لیں اس حکومت کا۔ جب لوگ خود بے تاب ہو کر باہر نکلیں گے ہاتھوں میں بل پکڑ کر تب ان کی قیادت کرنی چاہیے۔ وہ بھی تب جب یہ اچھی طرح اپنی پولیس سے لاٹھیاں کھا چکے ہوں۔

باہر نکلنے سے یاد آیا کہ ابھی کپتان کو باہر نکلنا ہے۔ آئی ایم ایف نے معاہدے میں شرط رکھی ہے کہ پاکستان سعودیہ، چین اور متحدہ عرب امارات کو بھاگ کر جا کر خوش خبری سنا کر آئے۔ ان دوست ملکوں کو بتائے کہ انہوں نے جو ہمیں ادھار دیا تھا اسے امداد میں بدل دیں۔ اس کا جو ہم سے سود لینا ہے وہ بھول جائیں۔ نہیں بھولنا تو نہ بھولیں کیونکہ ہم وہ دے ہی نہیں سکتے۔

چھوٹا سا کام ہے یہ۔ کپتان نے جانا ہے ابھی منہ کھولنا ہے اگلوں نے سب پیسے معاف کہنا ہے اور اس نے واپس آ جانا ہے۔

پر رولا یہ ہے کہ سعودیہ نے اسلامی کانفرنس تنظیم کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔ وہ بھی ایران کے خلاف۔ اب ہمیں کوئی پوزیشن لینی ہوگی۔ ہم ڈٹ کر مخالفت کر سکتے ہیں کہ خبردار ایران ہمارا بھائی ہے اس کے خلاف کچھ نہیں کرنا۔ پر آئی ایم ایف کی ہدایت مطابق سعودیوں اور اماراتی شیخوں سے پیسے بھی معاف کرانے ہیں۔

آئی ایم ایف نے معاہدے میں ایسی ایسی بہترین شرطیں منوائی ہیں کہ لوگوں نے آٹو پر چیخیں مارنی ہیں۔ بنکوں کے انٹرسٹ ریٹ میں اضافہ کرنا ہے۔ تیل گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں کٹ لگانا ہے دفاعی بجٹ میں کٹ لگانا ہے۔ روپئے کو ڈالر کے مقابلے پر کھلا چھوڑنا ہے۔ یہ سب کرنا ہے۔ اس کے بعد پھر حکومت نے کچھ نہیں کرنا لوگوں نے ہی کرنا ہے۔
اپوزیشن کیا تحریک چلائے گی کیا منصوبہ بنائے گی۔ بہترین منصوبہ تو آئی ایم ایف والوں نے بنایا ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi