ہم کس طرف جا رہے ہیں؟


جمعہ 17 مئی 2019 کی شام افطار سے چند منٹ قبل سوشل میڈیا پر یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی نظر آئی کہ پیپلزپارٹی سنٹرل پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ کے صاحبزادے اسامہ کائرہ ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اظہارِ افسوس اور تعزیت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

موت ایک بے رحم حقیقت ہے اور اس کٹھور حقیقت کی بے رحمی میں اس وقت ناقابلِ برداشت حد تک اضافہ ہو جاتا ہے جب یہ ناگہانی طور پر وارد ہو اور پھر اس صورت میں کہ اس کا شکار زندگی سے بھرپور ایک نوعمر ہشاش بشاش جسم ہو جسے موت کے پنجوں میں جا کر لاشے میں تبدیل ہو جانے کے بعد بھی مرحوم لکھتے کلیجہ منہ کو آئے۔

شاید اسی سبب ملک کے طول و عرض میں بستے دردمند دل کائرہ صاحب کے غم کو اپنا غم سمجھ رہے تھے اور ان کے لیے دلاسے اور پُرسے کی اپنی سی سعی کر رہے تھے۔ لیکن میں سوچ رہا تھا کہ ایک باپ کو اس کے جواں مرگ بیٹے کا پرسہ کس طور دیا جا سکتا ہے؟ اور کیا دیا بھی جا سکتا ہے؟ شاعر نے اسی لیے کہا ہو گا

دشمن کو بھی خدا نہ دکھائے پسر کا داغ

دل کو فگار کرتا ہے لختِ جگر کا داغ

آنکھوں کا نور کھوتا ہے نورِ نظر کا داغ

مرنا جواں بیٹے کا ہے عمر بھر کا داغ

کائرہ صاحب کے فگار دل پر لگ چکے اس عمر بھر کے داغ کو مندمل ہوتے نہ جانے کتنہ عرصہ درکار ہو لیکن میں سوچتا ہوں کہ اگر ان کی نظر سوشل میڈیا پر اسامہ کائرہ کے انتقال کی خبر نشر ہونے کے بعد ارسال ہونے والے ان تبصروں پر پڑ جائے جو ”کرپشن“، ”خاندانی سیاست کا رستہ رکنے“، ”ہمارے بچوں کے منہ سے نوالہ چھیننے والوں کے اپنے بچے مرنے لگے“ جیسے دلخراش الفاظ لیے ہوئے ہیں اور جن کی زبان بہرحال یہ ضرور آشکار کر رہی ہے کہ یہ تبصرہ نگار کس مخصوص سیاسی فکر کے پروردہ ہیں، ان تبصروں کو پڑھ کر ساری عمر شائستگی، تحمل اور برداشت سے مدلل سیاست کرنے والے اس باقاعدہ سیاسی کارکن پر کیا گزرے گی کہ جس کے سینے پر اب جوان بیٹے کی موت کا زخم تو ہے ہی لیکن کیا وہ ایک پوری نسل سے مایوس نہیں ہو جائے گا؟

کیا اس کارزار کو کہ جسے سیاست کہتے ہیں اور جس میں چلتے چلتے اس نے اپنی ساری عمر بِتا دی، جس کو عبادت سمجھ کر ادا کرتے اس نے کبھی صلے کی بھی تمنا نہیں کی کہ اس کو تو نام لے کر بھی آج کی حکمران جماعت اپنی صفوں میں شمولیت کہ دعوت دیتی رہی کیا وہ اس کو ایک گندہ دھندا سمجھنے پر مجبور نہیں ہو جائے گا؟ کہ ساری عمر کی ریاضت کے بعد بھی جب وہ حاصل یہی دیکھتا ہے کہ یہاں سیاسی مخالفت میں نہ کسی کی بیماری کا لحاظ کیا جاتا ہے اور نہ کسی مجبوری کو درخورِاعتنا سمجھا جاتا ہے، حتیٰ کہ موت تک کا بھی ٹھٹا اڑایا جاتا ہے۔ یہاں ستر سالہ بوڑھے کی اوپن ہارٹ سرجری بھی دکھاوا ہے اور کینسر سے لڑتی، دھیرے دھیرے موت کی طرف سرکتی خاتون بھی فنکار ہے۔ اور تو اور کسی راہ گیر کو بچاتے خود حادثے کا شکار ہو کر مر جانا بھی کسی کے دل کو نہیں جھنجھوڑتا کہ آپ کسی ”کرپٹ“ سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے باپ کی اولاد ہیں۔

کیا یہ نوجوانوں کی سیاسی تربیت پر سوال نہیں کھڑا کر دیتا؟ سیاسی تربیت کو تو چھوڑیے کہ اس کے لیے ہم وہ زمین ہی تیار نہ کر سکے جہاں پختہ سیاسی شعور کی فصل کاشت ہو سکتی۔ کیا ماہِ مقدس میں منبر سے بھی ایسی کوئی تعلیم نہیں مل رہی جو ایسے تبصرے کرنے والوں کو کسی کے دکھ میں شرکت کی فضیلت سمجھا سکے۔ اور ان سب اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں، کہ ان کی پروفائلز یہی بتاتی ہیں، کو کمرہ جماعت میں بھی کوئی استاد یہ نہیں سمجھا سکا کہ

”دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجناں وہ مر جانا ہو“

اور ان سوالوں کے جواب کھوجنے کے بعد کیا یہ واضح نہیں ہو جاتا کہ ہم مکمل ناکامی کے بعد مکمل تباہی کی طرف گامزن ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).