چوتھا صنعتی انقلاب اور ہمارا تعلیمی معیار


چلئے آج حال کے جھروکوں سے ذرا مسقبل میں جھانکتے ہیں۔ ہم 2030 میں کھڑے ہیں، آپ اپنے ارد گرد کیا دیکھتے ہیں؟ کیا موجودہ صورتحال کی نسبت نقشہ بدل چکا ہے؟ ضرور بدل چکا ہوگا، کیونکہ ٹیکنالوجی جس رفتارسے تبدیل ہورہی ہے، جس رفتار سے معلومات تک رسائی ممکن ہوتی جارہی ہے، یقیناً اس دور کا معاشرہ آج کے دور کے معاشرے سے بالکل ہی مختلف ہوگا۔

اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جب تک چھاپے خانے نہیں آئے تھے اور میکانکی پرنٹنگ پریس عام نہیں ہوئے تھے، چھاپا نویسوں کی بھرمار تھی جن کا کام تھا کتب یا پمفلٹس کی چھپائی۔ اس کی وجہ سے مختلف علاقہ جات میں ہزاروں لوگ اپنا روزگار حاصل کرتے تھے، لیکن پرنٹنگ پریس کے آنے کی دیر تھی اور ہزاروں کاتب اور چھاپا نویس اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ چھاپا خانوں کے مالکین اندرونی طور پر ان کو فارغ کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کا مقصد صرف منافع کا حصول تھا۔

ملکی اور عالمی معیشت میں مقابلہ کرنے اور قائم رہنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کم سے کم اخراجات کے ساتھ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرسکیں اور اس کے لئے ضروری ہے جدت، وقت کی بچت اور بہتر کوالٹی کی فراہمی۔ یقینی طور پر ان سب کا حصول بہتر ٹیکنالوجی اور جدید علوم سے آشنہ ہونا ہی ہے۔ اس کی مثال آپ اس طرح سے لے سکتے ہیں کہ آج کے دور میں چھپنے والی کتب کی تعداد اور اس دور میں چھپنے والی کتب کی تعداد میں زمیں آسمان کا فرق ہے۔ لیکن یہ سفر یہاں ختم نہیں ہوتا، اب انٹرنیٹ اور موبائل فونز وغیرہ نے جدید پرنٹنگ پریس کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور بڑے بڑے پبلشنگ ہاؤس اپنے کاروباری ماڈل کو ای بکس یا موبائل ڈیوائسز کے استعمال کو مدنظر رکھ کر کھڑا کر رہے ہیں۔

جب ہم صنعتی انقلاب کی بات کرتے ہیں تو صنعتی انقلابات تین اشکال میں رونما ہوچکے ہیں۔ پہلا صنعتی انقلاب میکانکی نوعیت کا تھا جس میں چیزیں میکانائز ہوئی تھیں، دوسرا ماس پروڈیکشن کا تھا اور تیسرا خودکاری کا۔ یہ صنعتی انقلاب اپنے ساتھ مختلف اور جدید ٹٰیکنالوجی لانے کے ساتھ، ان سے وابستہ علوم اور مینیجمنٹ سسٹم اور سماجی تعلقات کی نئی اشکال بھی لے کر آئے تھے۔ لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ صنعتی انقلاب نمبر ایک کا سسٹم، معاشی تعلقات وغیرہ کسی اوردور اورسسٹم پر چلانے کی کوشش کریں۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو جدت کا سفر رک جائے گا اور عالمی منڈی میں مقابلے کی قابلیت داؤ پر لگ جائے گی۔ پاکستان میں کچھ ایسا ہی ہورہا ہے اور ہوتا رہا ہے۔

ہم اس وقت چوتھے صنعتی انقلاب کی دہلیز پر کھڑے ہوئے ہیں۔ اس انقلاب کی نشانیوں میں ہائی ٹیک سٹریٹجی (جس میں جدت کو فروغ دینے کے لئے پبلک پالیسی میں ایسی انویسٹمنٹ، تعلیم کا ماڈل اور ٹٰیکنالوجی کو فروغ دیا جاتا ہے جن سے ٹیکنالوجی میں جدت آئے ) ، انٹرنیٹ آف تھنگز، عالمگیریت، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، خودکاری، سوپر کمپیوٹنگ، کوانٹم کمپیوٹنگ، انٹیلی جنٹ روبوٹ، خودکار گاڑیاں (ٹرانسپورٹ) ، نیورو ٹیکنالوجیکل دماغی اضافہ جات، جینیاتی ایڈیٹنگ وغیرہ شامل ہوں گے۔

ان میں سے کچھ چیزیں اس وقت یا تو عام ہوچکی ہیں یا ہونے جارہی ہیں۔ ڈرون ٹیکنالوجی یا خودکار گاڑیاں اس کی ایک مثال ہیں۔ جین ایڈیٹنگ میں انسانوں نے جتنی صلاحیت پالی ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ انٹرنیٹ آف تھنگز کو گاڑیوں، جہازوں، انشورنس، لاجیسکٹس، مواصلاتی نظام کے لئے استعمال لایا جانا اور ان کی پیداوار میں استعمال کیا جانا اب کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہی۔ اس وقت اعضا کی پیوندکاری میں تھری ڈی پرنٹنگ کا استعمال کیا جارہا ہے، یقینی طور پر اس سب نے دنیا بھر کی صنعتی، معاشی، سماجی نیز ہر طرح سے انسانی زندگی کو تبدیل کرکے رکھ دینا ہے۔

لیکن یہ صرف کوئی مشکل الفاظ کا جمگھٹا ہی نہیں بلکہ اس کے پیداواری قوت اور انسانی بہبود پر بنیادی اور گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں، ماہرین کا ماننا ہے کہ انڈسٹری 4.0 کا استعمال کرکے پیداوار کو 30 %تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ ظاہری سی بات ہے کہ اس سب سے عالمی منڈی میں مقابلے کی قوت میں شدید اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ، ہم جانتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں انسانی زندگی کو لاہک خطرات میں سے لاحق قلیدی خطرات میں آبادی میں اضافہ، ماحولیاتی تبدیلیاں، جنگ، قحط، معاشی عدم استحکام وغیرہ شامل ہیں۔ ان ساری مشکلات کو حل کرنے کے لئے نئے سماجی، سیاسی، تیکنالوجیکل، معاشی ماڈل اپنانے پڑیں گے۔

پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اس لئے یقینی طور پر آنے والے ادوار میں رونما ہونے والی شدید موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر ان افراد پر سب سے شدید ہوگا جن کا انحصار براہ راست یا بلاواسطہ زراعت سے ہے۔ ان اثرات کا تخمینہ اس مشاہدے سے لگایا جاسکتا ہے کہ عمومی رجحان چھوٹے علاقوں سے بڑے شہروں میں نقل مکانی کا ہی رہا ہے، جس سے شہروں پر مزید دباؤ بڑھا ہے اور حصول روزگا کے لئے تناؤ اور مقابلہ بازی مزید سخت ہوتی جارہی ہے۔

ترقی پزیر ممالک میں رجحان یہی رہا ہے کہ ہماری پیدواری انڈسٹری کا انحصار سستی اور کثیر تعداد میں موجود لیبر پر تھا۔ ابھی تک یہ ماڈل چلتا جارہا تھا، گو کے اس کے اثرات پر بھی بات کی جاسکتی ہے کہ کیسے ٹیکسٹائل انڈسٹری پر مختلف بین الاقوامی برانڈز سستے داموں اور شدید غیر انسانی حالات میں مزدوروں سے کام لے کر ان کا استحصال کرنے کے ساتھ ان کی اوپر کی طرف حرکت پذیری کو روک دیتے ہیں۔ جس سے معیشت پر بہتر اثرات پڑنے کے برعکس مجموعی طور پر منفی اثرات ہی مرتب ہوتے ہیں۔

لیکن پھر بھی، اس کی وجہ سے دگر گوں ہی سہی معیشت چل ہی رہی تھی۔ لیکن اب، خودکار اور انٹیلی جینٹ مشینوں اور روبوٹ کے آنے کے بعد کہا جارہا ہے کہ ترقی پزیر ممالک میں سیاسی بحرانوں، دہشت گردی کے خطرات، توانائی کی قلت یا عدم موجودگی، تکنیک کی کمی اور بنیادی ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے اب پیداواری پلانٹس کو دوبارہ ترقی یافتہ ممالک لے جایا جائے گا تاکہ ان سب معاملات کے اثرات سے بچا جاسکے۔ مزید یہ کہ کیونکہ جدید مشینری کو لگانے کی قیمت کم و بیش یکساں ہوتی ہے اور ایک غیرمستحکم ملک میں لگانے کے مجموعی اثرات منفی ہی ہوتے ہیں، اس لئے اب یہ ماڈل شاید زیادہ عرصے چل نہ پائے۔

خود پاکستان میں صنعتی انقلاب 4.0 کو اپنانے کی کوششیں کی جارہی ہے، لیکن اس میں چند شدید قباحتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہماری عمومی تعداد کمپیوٹر جیسی بنیادی ٹیکنالوجی سے نا آشنا ہے۔ پھر ان میں جدید تکنیکی قابلیت کی بھی کمی ہے، گو کے TEVTAوغیرہ جیسے ادارے موجود ہیں جو کہ تکنیکی لیبر کو تیار کررہے ہیں، لیکن جن ماڈلز پر وہ اب کام شروع کررہے ہیں عالمی منڈی میں وہ ناپید ہوچکے ہیں، یہ اس طرح ہے جس طرح کوئی فرد ریس میں تب شامل ہونے کی کوشش کرے جب ریس ختم ہونے کو جارہی ہو۔ پھر صرف لیبر ہی نہیں، معیشت کو گنی چنی اقسام کے کارندے درکار ہوتے ہیں جو ہر قسم کے کام کرسکیں۔

اگر ہم اپنے موجودہ تعلیمی نصاب کا جائزہ لیں، تو یقین مانیے دل ڈوب جاتا ہے۔ کیونکہ اکثریت مہنگے سکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتی اور ان کا انحصار حکومتی بورڈز پر ہی ہوتا ہے۔ تو اکثریت ہمارے پبلک تعلیمی انفراسٹرکچر کی مرحون منت ہے۔ جب ہم پبلک کورس پر نظر دوڑائیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آج تعلیمی دوڑ میں شامل ہونے والے بچے جنہوں نے 2035 میں جاکر معاشی منڈی کا حصہ بننا ہے، ان کے لئے کوئی خاص امید نظر نہیں آتی۔

دنیا بھر میں ممالک اس بات کو یقینی بنارہے ہیں کہ کیسے آنے والی نسل کو اس قابل بنایا جاسکتا ہے کہ اس کو عالمی منڈی کے معیار کے مطابق تیار کیا جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کے پاس چوتھے صنعتی انقلاب کے لئے درکار صلاحیتیں ہوں۔ مگر افسوس کے ہمارا نصاب ابھی یہی کہیں پہلے یا دوسرے صنعتی انقلاب کے لئے ہی مناسب ہے۔

مثال کے طور پر انڈسٹری کی نوعیت عالمگیریت پر مبنی ہوچکی ہے۔ لیکن ہمارے نصاب کے سماجی علوم ہمیں علاقائی، یا مذہبی تعصب میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اگر ایک ایسا فرد کل بین الاقوامی سفر یا کام کے سلسلے میں بیرون ملک چلا جاتا ہے تو کیا اس کے ذہن میں پروئے گئے یہ خیالات کیا اس کے کام میں خلل نہیں دالیں گے؟ دنیا اپنے نصاب میں عالمی تاریخ اور عالمگیریت کا درس دے رہی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا نصاب رٹے پر مبنی ہے، منتق کی اقسام، پرنسپل کو سمجھنے کی صلاحیت کا ادراک شاگرد کو دیا ہی نہیں جاتا، مزید یہ کہ سوال کرنے کی جرات یا سوالات کرنے کی عادت اور انسانی جبلت کو بچپن میں ہی سلب کردیا جاتا ہے۔

اگر ہم اس وقت دنیا کی بڑی معیشتوں پر نظر دوڑائیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ وہ بھی اس عنصر سے آشنا ہیں اور انہوں نے اس پر کام بھی شروع کردیا ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت دو سسٹم جنہیں STEM ( سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئیرنگ اور ریاضی) یا STEAM (سائنس، ٹٰیکنالوجی، انجینئیرنگ، آرٹس اور ریاضی) کہا کاتا ہے کو استعمال کرکے اس بات کو یقینی بنایا جارہا ہے کہ وہاں پر آنے والی نسل آج سے دس پندرہ سال بعد کی ملازمت کی مارکیٹ میں کام حصول کے قابل ہوں اور ان کے پاس ضروی صلاحیتیں بھی موجود ہوں۔

اس سے نہ صرف افراد بلکہ عمومی معاشرے اور سماج پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ مزید برآں نوجوانوں اور بچوں کے سافٹ سکلز پر بھی کام کیا جارہا ہے جیسے کہ سماجی تعلقات استوار کرنے، کمیونیکیشن کے اصول سیکھانا، سیکھنے کے عمل کو سمجھنا، کام کے حوالے سے لچکدار ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ ساتھ ہی مینیجمنٹ سسٹمز کو بھی ارتقا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور لائنیر مینیجمنٹ کی جگہ مختلف اقسام کے مینیجمنٹ سسٹم اپنائے جارہے ہیں۔

گو کہ STEMیا STEAM سسٹم کسی بھی طور پر حرف آخر نہیں اور عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید کوئی اور سسٹم لایا جائے، لیکن اس وقٹ ایم آٗی ٹی جیسے نامی گرامی ادارے اسی سسٹم کے تحت کام کررہے ہیں اور کئی بین الاقوامی سکول اسی سسٹم کے تحت اپنے نصاب استوار کررہے ہیں۔ اس کی وجہ بہت ہی بنیادی ہے، آنے والے ادوار میں انسانوں کا مقابلہ مشین سے ہوگا۔ نوکری مشین کو دیں یا انسان کو؟ ظاہری بات ہے انسان مشین سے مقابلہ جسمانی قابلیت یا دہرائے جانے والے کاموں میں تو نہیں کرسکتا، حد تو یہ ہے کہ آٹو پائلٹ ٹیکنالوجی اتنی بہتر ہوگئی ہے کہ اب آنے والے دنوں میں شاید جہاز مکمل طور پر آٹومیٹک ہوجائیں۔

انسانی مزدوری یا کام بہت مشکل اور دماغی علوم تک محدود رہ جائیں گی، جیسے تعلیم کا شعبہ، صحت، آرٹ، ڈیزائین، مشینوں کو پروگرام کرنا وغیرہ۔ جبکہ بنیادی کام جیسا کہ فیکٹری لائن میں ملازمت، ویلڈنگ، وغیرہ یہ کام مشینیں لے لیں گی۔ اس سب میں ہمیں مزید لوگوں کی ضرورت ہو گی جو کہ اس سسٹم کو سمجھ سکیں اور اس پر کام کرسکیں۔ مزید یہ کہ جیسے آرٹی فشل انٹیلی جنس بڑھے گی اس طرح اس کی سیکھنے اور نئے کام کرنے کی صلاحیت بھی بڑھتی رہے گی۔

اگر ہم اس وقت دنیا کی ترقی یافتہ معیشتوں پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کیسے انہوں نے ابھی سے اپنی کام کرنے والے افراد کو اس طرز پر تیار کرنا شروع کردیا ہے تو ہمیں اندازہ ہوجائے گا۔ ورلڈ اکنامک فارم کے تحت دنیا بھر کے ممالک میں STEM گریجوایٹس کی تعداد چین 4.7 ملین، انڈیا 2.6 ملین، امریکہ 0.56 ملین ہے اور آنے والے دنوں میں یہ تعداد مزید بڑھتی رہے گی۔ اس سب کی وجہ سے عالمی منڈٰی میں یہ لیبر فورس زیادہ بہتر طور پر مقابلہ کرسکے گی، بنسبت ان ممالک کے جو ان سسٹم کو اپنے تعلیمی نصاب میں شامل نہیں کرپائیں گے۔

ذرا واپس 2030 میں چلتے ہیں، پٹرول پمپ آٹومیٹد ہیں، سروس سٹیشن بھی، مکینک بھی نہیں درکار، ہوٹل بھی کم و بیش آٹومیٹڈ ہیں، کھانے کے کارخانے اتنے ہیں کہ ماسوائے پر آسائش کھانے کے عام باورچیوں کی ضرورت نہیں، مانیفیکچرنگ پلانٹس میں بھی مشینوں کی اجارہ داری ہے، تو ارد گرد کیا نظر آتا ہے؟ بیروزگاری کا سمندر؟ یعنی دہشت گردوں، گینگز، انتہا پسند مذہبی تنظیموں اور پر تشدد عناصر کے لئے ایندھن؟ یا ایک دوسرا منظر بھی مممکن ہے، مشینون کے سرپرست، اعلیٰ ذہن، STEM، STEAMجیسے تعلیمی ماڈلز سے آراستہ ایسے بین الاقوامی شہری جو جدید علوم سے آراستہ ہیں اور اپنے سیاسی و سماجی شعور کی وجہ سے ایک انسانی بہبود، بھائی چارے، انسانی مساوات، جمہور، امن اور انصاف پر مبنی، سماج کے پرامن کارکن، ہمارے آج کے فیصلے اور عمل ان دونوں میں سے ایک منظر کو یقینی بنائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).