وکلا جدوجہد پر ”جسٹس آف پیس“ کے اختیارات کی بحالی


فروری کے تقریباً وسط میں سپریم کورٹ کی کمیٹی جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کررہے تھے کی طرف سے ”جوڈیشنل پالیسی 2019“ متعارف کروائی گئی جس میں چند ترامیم شامل کی گئی تھیں جن کے تحت صرف چار دنوں میں قتل کے مقدمے کا فیصلہ، ضمانت بذریعہ تھانیدار (ایس ایچ او) ، جانشینی سرٹیفکیٹ بذریعہ نادرا اور ضابطہ فوجداری کی دفعات 22۔ Aاور 22۔ Bکے تحت دائرہونے والی پٹیشن کا خاتمہ یعنی جسٹس آف پیس کے اختیارات کو ختم کیا جانا شامل تھا۔

مذکورہ ترامیم کے بعد وکلا کی طرف سے بھر پور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس کے تحت ہر جمعرات کے روز ماتحت عدالتوں میں وکلا کی طرف سے مکمل ہڑتال اور عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جاتا تھا یہ سلسلہ ایک ماہ اور کچھ دن ہی جاری رہا اوراِس دوران وکلا نمائندگان نے سپریم کورٹ کی کمیٹی سے مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رکھا جو بالآخر کامیاب رہا اور 22 اپریل کوفریقین کی باہمی رضا مندی سے ایک ”پریس ریلیز“ جاری کرتے ہوئے مذکورہ ترامیم جلد واپس لینے کا عندیہ دیا گیا۔ اِس طرح وکلا نے بھی فوری احتجاج کی کال واپس لیتے ہوئے پورے ملک میں ہڑتال اورعدالتی بائیکاٹ کا سلسلہ ختم کردیا۔

وکلا جدوجہد کے نتیجہ میں ضابطہ فوجداری کی دفعات 22۔ Aاور 22۔ Bکی بحالی سے اب سائلین کی دادرسی ممکن ہے اِس طرح جب پولیس کسی سائل کی بات نہیں سنتی ہے تو وہ مجوزہ دفعات کے تحت ”جسٹس آف پیس“ سے رجوع کرتا ہے اِس کے بعدعدالت قانون کے مطابق سائل کی درخواست پر سماعت کے بعدپولیس کو اندراج مقدمہ یا درخواست کو خارج کرنے کا حکم صادر فرماتی ہے جوکہ انصاف کی فراہمی اور دادرسی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔

اگراُس دور کی بات کی جائے جس میں مذکورہ دفعات معطل رہیں تو ”ڈسٹرکٹ کمپلینٹ افسر“ جوکہ ایک ”ایس پی صاحب“ ہیں نے کئی ایسے فیصلے کیے جو قانون کے منافی تھے کیونکہ ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کا آئین ہر خاص وعام کو برابریعنی مساوی حقوق فراہم کرنے کا درس دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ”خیانت ِمجرمانہ کے بدلے فراڈاور ڈکیتی کے بدلے چوری وغیرہ کے مقدمات درج کیے گئے جس سے سائلین کی شنوائی اور انصاف کی فراہمی ناممکن ہوگئی تھی۔ “ مذکورہ ترامیم ”کی بحالی سے ہمارا ملک“ پولیس اسٹیٹ ”بننے سے بچ گیا ہے۔ اِس طرح پیشہ وکالت سے منسلک افراد کا استحصال نہیں ہوگا اوراب دوبارہ سائلین کو انصاف کے حصول کے لئے دربدر بھی نہیں ہوناپڑے گا۔

میری ذاتی رائے میں در اصل عدلیہ پر بوجھ فوجداری مقدمات کا نہیں بلکہ دیوانی مقدمات کا ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ ”ضابطہ دیوانی“ میں ایسی ترامیم لائی جائیں جن کی وجہ سے دیوانی اور جھوٹی مقدمہ بازی کی طوالت ختم کی جاسکے کیونکہ آج تک ”ضابطہ دیوانی“ پرارباب ِاختیار نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ اِسی لئے اِن مقدمات کی کارروائیاں نسل در نسل چلتی ہیں یاپھر ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کو ”ٹارگٹ“ دیا جائے کہ روزانہ، ہفت وار یا ماہانہ بنیاد وں پر مقررہ مقدمات کے فیصلہ لازمی کیے جائیں۔

آخر میں، میں اُمید کرتا ہوں کہ چیف جسٹس آف پاکستان بہت جلدملک میں ”عدالتی نظام“ کی تبدیلی کے لئے موجودہ حکومت سے مل کر کوئی ایساقدم اٹھائے گے جس کا مقصد صرف اور صرف سائلین تک انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا اور آنے والی نسلوں کے لئے ایسا ”پاکستان“ چھوڑ کر جاناہوگا جس میں مساوی قانون سب کے لئے اور انصاف کی ہر ممکن فراہمی لازمی جزوہوگی۔ ویسے بھی ہمارے وزیراعظم نے ملک کو ”ریاستِ مدینہ“ کی طرز پرحقیقی اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کا اعلان اور تمام ”دیوانی مقدمات“ کا فیصلہ ایک سال میں سنانے کاوعدہ اپنے پہلے ”قوم سے خطاب“ میں کیا ہواہے جو ہر پاکستانی کی خواہش کے عین مطابق ہے۔ آخر میں، میں اِس دعا کے ساتھ اپنے کالم کا اختتام کرنا چاہوں گاکہ ”اللہ پاک ملکِ پاکستان میں انصاف و قانون کا بہترین نظام رائج فرمائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).