میں ایشوریا جیسی ماں بننا چاہتی ہوں


ایک زمانے میں فلم دیوداس کی میں اتنی ہی دیوانی تھی جتنا پارو اپنے دیو کی۔ پارو بیاہ کر دوسرے گاؤں کیا گئی، دیوداس، بنا کسی کے کہے دنیا ہی چھوڑ گئے۔ جانے کتنی بار میں نے یہ فلم دیکھی، کوئی حساب نہیں۔ فلم میں پارو کا مرکزی کردار نبھانے والی ایشوریا رائے نے مجھے جس طرح متاثر کیا اس کے بعد سے آج تک میں اس کی اصل زندگی کا یوں پیچھا کرتی ہوں، گویا اس کی مداح نہ ہوئی بلکہ ”پاپارازی“ ہوگئی۔ اس کھوج اور تجسس نے جس حقیقت کو مجھ پر آشکار کیا وہ یہ کہ صرف فلموں میں ہی نہیں بلکہ عام زندگی میں بھی ایک عورت کی حیثیت سے ایشوریا کا کردار لائقِ تحسین ہے۔ سب چھوڑیے، صرف ایک ماں کے روپ میں ہی اسے جانچیں تو آنکھیں حیرت سے کھلی رہ جاتی ہیں۔

اپنی بیٹی آردھیا کی پیدائش سے اب تک ہر فورم پر آردھیا ان کے وجود کے حصے کی طرح ان کے ساتھ جڑی نظر آئی ہے۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد ہر موقع پر، خدمت گاروں کی ایک پوری فوج رکھنے کے باوجود ایشوریا اپنی نومولود بیٹی کو خود بازوؤں میں بھرے، گود میں اٹھائے نظر آتی تھیں، حتٰی کہ شوہر کے ساتھ چلتے ہوئے بھی بیٹی ابھیشک کے بجائے انہی کی گود میں ہوتی تھی۔ صحت مند بیٹی کا بوجھ اکثر ان کی تھکن کیمرے کی آنکھ سے پوشیدہ نہیں رکھ پاتا تھا، لیکن ایشوریا کو اس تھکن کی کبھی کوئی پروا نہ ہوئی۔

آردھیا بچن کے کچھ اور بڑا ہونے کے بعد بھی فوٹوگرافرز سے دور رکھنے کے لیے ایشوریا اسے جھٹ سے گود میں بھر کے نکل جاتیں کیوں کہ بچی کیمروں کے سامنے اکثر کنفیوز ہوکر رونے لگتی تھی۔ اس عمل نے پریس میں ان افواہوں کو جنم دیا کہ شاید ان کی بیٹی کسی ایب نارملٹی کا شکار ہے اسی لیے بچن خاندان اسے پریس اور میڈیا سے بہت دور رکھتا ہے اور ایشوریا بھی اسے اپنی گود سے اتارنے کو تیار نہیں ہوتیں۔ گزرتے وقت نے ان افواہوں کو غلط ثابت کردیا۔

آردھیا کا ہاتھ تھامے آج بھی ایشوریا اسے اپنے ساتھ لگا کر رکھتی ہیں اور ثابت کرتی ہیں کہ دنیا کی نظروں میں چاہے وہ ایک سیلیبرٹی اور اسٹار ہی کیوں نہ ہوں آردھیا کے لیے بس ایک عام سی ماں ہیں۔ بیٹی کو گود میں بھرتے ہوئے کپڑے مسل جائیں یا ہیئر اسٹائل بگڑ جائے، ایشوریا نے کیمروں کے سامنے کبھی اس بات کی فکر نہ کی۔ حیرت کا سب سے بڑا جھٹکا تو وہ بین الاقوامی فلمی میلا ہے، جسے دنیا کانز فلم فیسٹیول کے نام سے جانتی ہے، اس میں ہر سال ایشوریا کو شرکت کی دعوت ملتی ہے اور لگاتار کئی سال سے ریڈ کارپٹ پر وہ آردھیا کا ہاتھ تھامے بڑے فخر اور انبساط سے انٹری دیتی ہیں۔ گویا یہ بتانا چاہتی ہوں کہ سیلیبرٹی سے زیادہ وہ ماں کے روپ میں مطمئن اور شاد ہیں۔ اس سال کے کانز فلمی میلے میں بھی کچھ ایسے ہی مناظر دنیا نے دیکھے۔

ایشوریا کے بارے میں یہ سب پڑھتے ہوئے بار بار مجھے اپنے سماج کی وہ عورتیں یاد آتی ہیں جو کسی بھی تقریب میں جانے سے پہلے آنکھیں نکال کے بچوں کو وارننگ دیتی ہیں کہ خبردار گود میں چڑھنے کی کوشش بھی کی تو گھر واپس آکر اپنی خیر منانا۔ شوہروں کو بھی اکثر عورتیں آڑے ہاتھوں لے کر جتاتی ہیں کہ اس بچے کو دنیا میں لانے کے سزاوار اور خطا کار کیوں کہ تم ہو اس لیے محفل میں بھی اپنا بچہ خود سنبھالنا، ورنہ بھول جانا جو کبھی تمہارے ساتھ گھر سے باہر قدم رکھوں تو! کچھ عورتیں تو ایسی بھی دیکھی ہیں جو خاندان کی کسی بھی متوقع شادی سے پہلے، دل پر بڑا سا پتھر رکھ کے اس خدشے کے زیرِاثر ساسوں کے لاڈ اٹھانے لگتی ہیں کہ ان کا بوتھا یوں ہی سوجا رہا تو بھلا تقریب میں بچہ پھر کون سنبھالے گا؟

یہ عادت اب ہمارے معاشرے کی روایت بن چکی ہے کہ بازاروں، شادی بیاہ یا دیگر محفلوں میں مائیں بچوں سے بے زار انہیں ادھر ادھر پٹخ رہی ہوتی ہیں، گویا پیٹ سے اولاد نہیں کوئی بوجھ جَنا ہو۔ انہیں سنبھالنے کی ذمہ داری زیادہ تر شوہروں کے سر پر آتی ہے کیوں کہ عورت کی نظر میں مرد سے زیادہ فارغ مخلوق گھر میں اور کوئی نہیں۔ سو عورتیں پوری سج دھج کے ساتھ محفلوں کے مزے لوٹتی ہیں جب کہ مرد، غم ِ روزگار کے بعد غمِ زوجہ کو بہلاتے اور چپ کرواتے گھر واپس لوٹ آتے ہیں۔ پہلے یہ مناظر کم کم دیکھنے میں آتے تھے، لیکن جیسے جیسے خوب سے خوب تر اور محفلوں کی جان بننے کا زنانہ جنون آپے سے باہر ہوتا جارہا ہے، ویسے ویسے بچہ گھر میں اور گھر سے باہر دوسروں کی ذمہ داری بنتا جارہا ہے۔

ایسے وقت میں ایشوریا رائے جیسی بڑی اور باصلاحیت اسٹار کے منہہ سے نکلے یہ الفاظ مجھے حیرت زدہ کر دیتے ہیں کہ ایک ماں کی حیثیت سے وہ آردھیا کے سارے کام اپنے ہاتھ سے کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ بیٹی کے بعد ان کی ترجیحات یکسر تبدیل ہوچکی ہیں، اب وہ ہر چیز بعد میں اور آردھیا کو سب سے پہلے دیکھتی ہیں۔ ایشوریا کے ان جملوں سے زیادہ حیرت مجھے اس بات پر ہوتی ہے کہ ہم عورتیں سیلیبریٹیز کو بھی صرف اتنا ہی کاپی کرتی ہیں جتنے میں ہمارا فائدہ ہو۔

آنکھوں کے رنگ سے لے کر لبوں کی لالی، اور بالوں سے لے کر چلنے کے طریقوں کی نقالی تو بہ آسانی کرلی جاتی ہے لیکن کوئی عورت اس کھوج میں نہیں جاتی کہ ایک عورت کی حیثیت سے ہماری پسندیدہ سیلیبرٹی کی ذات میں کیا کیا گُن موجود ہیں۔ اگر ایک عورت یہ کہہ سکتی ہے کہ میں ایشوریا جیسی دِکھنا چاہتی ہوں تو ساتھ یہ کیوں نہیں کہتی کہ میں ایشوریا جیسی ماں بھی بننا چاہتی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).