کیا سیکس ایجوکیشن سے درندگی رُک سکے گی؟


لاہور میں ایک دوست کا نیٹ کیفے تھا، وہاں پر کیبن بنے ہوئے تھے بلکہ اب بھی ویسے نیٹ کیفے موجود ہیں جبکہ انٹرنیٹ کی تمام ضروریات آپ کے موبائل نے پوری کردی ہیں لیکن ان کیفوں میں اب بھی لوگ جا رہے ہوتے ہیں۔ سات، آٹھ سال قبل اس دوست کے کیفے پر انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے جا بیٹھتا تھا جہاں پر چائے کافی اور دو چار دوست بیٹھ کر گپ شپ کرتے۔ وہاں پر ایک دن ایک کوڑا اکٹھا کرنے والا لڑکا آیا، کوڑے کی بوری کیفے کے باہر رکھی اور کیبن خالی کا پوچھ کر ٹوکن لے کر بیٹھ گیا۔ میں نے استفسار کیا دوست سے کہ بھائی کوڑے والے کا کیا کام نیٹ کیفے پر، چونکہ کیفے والوں نے جب مواد رکھا ہوتا ہے تو انہیں بہتر آئیڈیا ہوتا ہے۔

کچھ دیر کے بعد وہ کوڑے والا باہر نکلا پیسے دیے اور چل دیا۔ اس کے بعد اسی کیبن کی طرف کسی اور لڑکے نے ٹوکن لے کر بیٹھنا چاہا تو وہ فوری باہر آگیا۔ وہ کوڑے والا وہاں پورن موویز دیکھ کر غلاظت بکھیر گیا تھا۔ اب نیٹ کیفے کے مالک نے اسے گالیان نکالیں اور صفائی کرانے والے کو بلایا اور خود اظہار کیا کہ یہ لڑکا تو اکثر آتا تھا۔ یہ پہلی بار ہوا ہے۔ بند کیفوں کا تُک کیا بنتا ہے پوچھا۔ خیر۔

دس سالہ ’فرشتہ‘ کے ساتھ ہونے والی درندگی کے بعد سوشل میڈیا پر اس قسم کی بحث ملتی ہے جو چند دن تک ٹمپریچر ہائی رکھنے کے بعد بغیر کسی نتیجے ختم ہوجاتی ہے۔ اور پھر کچھ عرصے بعد دوبارہ ایسا کوئی نا کوئی سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔ ۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ سیکس ایجوکیشن یا حیاء ایجوکیشن سے درندوں کو ایسی درندگی سے روکا جا سکے گا؟

بہت مشکل لگتا ہے۔ یہ اکثر جاہل ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیکس کی ہی کمی ہے۔ وہ نکاح کہہ لیں یا دیگر ذرائع کہہ لیں۔ اکثر ان پڑھ اور جاہل لوگ ہیں، یہ مولویوں کی تقریریں بھی سنتے ہیں جس میں جنت جہنم بتلائی جاتی ہے۔ یہ ٹی وی پر خبریں بھی دیکھتے ہیں یہ ایسی درندگی کے خلاف مہم کو بھی سوشل میڈیا پر شئیر کرتے ہیں۔ یہ سب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ پورن موویز بھی دیکھتے ہیں۔ مگر یہ ضرورت کا اظہار گھر والوں کے آگے نہیں کرسکتے، نہ معاشرے میں، نہ ہی گھر والے ان سے پوچھتے ہیں نہ ہی ہمارے سماج میں کوئی پوچھتا ہے۔

پھر یہ جنسی بھوک مٹانے کے لیے ایسی حرکتیں کرتے ہیں، عادی بن جاتے ہیں درندے بن جاتے ہیں۔ اس بھوک مٹانے کے لیے، پھر اس کے بعد اپنی جان بچانے کے ساتھ خود کو شرمندگی اور سزا سے بچانے کے لیے بچے بچیوں کو مار دیتے ہیں۔ فلمی اثرات اور سنسنی پروگراموں کے اثرات کے پلے یہ لوگ پھر ثبوت مٹانے کے لیے ایسی درندگی کر بیٹھتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔

اصل کام تو صاحب اختیار و اقتدار کا ہے کہ وہ تعلیم کو کیسے عام کریں۔ کیسے قوانین لاگو کریں، کیا آزادی اور پابندی کا تعین ہو موجودہ وقت کے مطابق۔ کیا سیکس ایجوکیشن یا حیاء ایجوکیشن ایسے مسائل کو کنٹرول کرے گی؟

دیکھیے اس میں بہت سارے عوامل ہیں جن میں آبادی کا اضافہ، تعلیم و صحت کی کمی اور بڑی وجہ معاشی مسائل ہیں۔ معاشی مسئلہ ایسا ہے کہ گھر کے حالات دیکھ کر نوجوان شادی کی بجائے نوکری، مزدوری اور کام کی طرف بھاگتے ہیں۔ پھر وقت بہلانے اور انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے کبھی چوری، ڈکیتی، فراڈ اور ایسی درندگی کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ نہ تو والدین ان کی ضروریات پر توجہ دے پاتے ہیں نہ وہ والدین کے آگے اپنی مجبوری کا اظہار خیال کرسکتے ہیں۔ درمیان میں ایک شرم کا تصور بھی اس زہر کو پھیلا رہا ہے۔ معیشت ٹھیک ہوگی تو تعلیم حاصل ہوسکے گی۔

سیکس و حیاء ایجوکیشن والے یہ بتا سکیں گے کہ ریپ بڑا جرم ہے لیکن چوری، ڈکیتی و دہشت گردی میں قتل کرنے والے انسانوں کو کون سی تعلیم دی جائے۔ مسئلہ تو انسانی جان کا ہے۔ اصل مسئلہ شعوری پستی ہے، خاندانوں کے بیچ گیپ ہے۔ کمیونیکشن کا ایشو ہے۔ تعلیم تو تعلیم یافتہ کو دی جاسکتی ہے یا بچے کو، ان پڑھ اور نیم خواندہ کو کیسے تعلیم دیں گے۔ کیا معیشت اس سطح پر ہے کہ دیہات میں رہنے والے کسان، دیہاڑی دار مزدور، کچرا اٹھانے والے لڑکے، سڑکوں پر سونے والے لوگ، ان سب کو کیسے تعلیم دی جاسکے گی۔ یہ فقط سوالات ہیں۔ انکار نہیں۔ کوشش کی جا سکتی ہے، اگر مقتدر قوتیں سنجیدہ ہوں۔

مختصر یہ کہ معیشت کا مسئلہ جب تک حل ہو نہ ہو لیکن ان حالات میں متعدد شعبوں کے خصوصاً ماہرین نفسیات سے جب تک اس معاملے میں خدمات نہیں لی جاتیں اور قوانین مرتب کرنے والے افراد سیاست سے نکل کر اس مسئلے پر سنجیدہ نہیں ہوتے تو جو بھی تعلیم دیں وہ بے اثر رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).