ہم پاکستان چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوئے؟


بہت بھاری دل کے ساتھ پاکستان کو خدا حافظ کیا۔ یقین آج بھی نہیں آ تا۔ کافی عرصہ تک دعائیں کیں کہ حالات سازگار ہوں۔ شہر میں امن کے لیے وظیفے کیے۔ بہت دعائیں کیں مگر حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ ہم دس بارہ سال افریقہ میں رہنے کے بعد امریکہ کا تین سال کا ملٹیپل ویزا چھوڑ کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے پاکستان آئے تھے۔ وہاں کی مٹی کی خوشبو ہمیں کسی عطر سے زیادہ عزیز تھی اور ہے۔ لیکن جب کسی جگہ پر آپ کے بچوں کی جان محفوظ نہ ہو۔ قدرتی خطرات کے علاوہ انسانی رویّوں کی سنگینی کی وجہ سے آپ کی جان مال عزت محفوظ نہ ہو تو آپ پر ہجرت فرض ہوجاتی ہے۔

خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ہجرت کی وجوہات ہوتے ہوئے کوئی صاحبِ استطاعت ہجرت نہ کرے تو خدا اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔ اور ہجرت کرنے والوں پر اپنی جناب سے رحمت کے دروازے کھولتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ ہم افریقہ سے پاکستان میں حب الوطنی کے جذبے سے سرشار آئے تھے۔ لیکن پھر جو دیکھا وہ آج تک ذہن سے محو نہیں ہوتا وہ نہ دیکھتی تو کتنا اچھا ہوتا۔

کیا بھولوں اور کیا کیا یاد کروں؟ بہت سے واقعات ہیں۔ وہ بھیانک واقعہ جب ایک روز بچوں کے اسکول کی چھٹی ہوئی تھی۔ اور ادھر بچے سڑک پر آئے ادھر کسی نے اندھا دھند فائرنگ کھول دی۔ وہ دو گرہوں کی آپس کی فائرنگ تھی لیکن اس کی زد میں بچے بھی آسکتے ہیں، اس کسے پرواہ تھی؟ کیونکہ زیادہ سے زیادہ دہشت پھیلانے اور اموات کی خبر پر پیسہ ملتا تھا۔ میں ہی جانتی ہوں کہ کس طرح بچوں کو لے کر گھر پہنچی تھی۔ اس بھگدڑ میں میرے پیر کو ٹھوکر لگی تو میں اس کو دیکھنے کے لیے رک نہیں سکی تھی۔ گھر آکر معلوم ہو اکہ خون بہہ رہا تھا۔

ایک بار ہمارا چھوٹا بچہ بیمار تھا۔ میاں جی نے شام کو آنا تھا۔ بخار بڑھنے کے ڈر سے پہلی بار میں خود اکیلی اس کو لے کر قریب کے کلینک چلی گئی۔ ابھی نکلی تھی کہ ایک بھگڈر مچ گئی۔ شٹر گرنے لگے۔ کہیں سے کچھ گاڑیوں کی ریلی بلائے ناگہانی کی طرح اسلحہ لہراتی ہوئی تیزی سے چلی آرہی تھی۔ بیٹے کو لے کر ایک گھر کے ساتھ اندھے سے کونے میں، مَیں ایک طرف بمشکل چھپ سی گئی۔ دل بری طرح دھڑک رہا تھا کہ خدا جانے اب کیا ہو۔

کب کوئی بھولی بھٹکی گولی آئے اور قصہ تمام کردے۔ اگر مجھے گولی لگ گئی تو میرا ایک سالہ بچہ تو کسی کو یہ بھی نہیں بتا پائے گا کہ وہ کون ہے اور اس کا گھر کہاں ہے۔ کون جانے کوئی اس کے گھر والوں کو ڈھونڈنے کی زحمت بھی کر ے گا یا نہیں۔ اففف اس قدر خوفناک سوچ تھی کہ آج بھی جھر جھری آجاتی ہے۔ خدا نے ہی کسی طرح گھر پہنچایا۔

ایک روز میاں جی کسی کام کی وجہ سے گھر پر تھے۔ ہم نے صبح بچوں کو اسکول چھوڑا اور بریڈ لینے گھر کے قریب ایک بیکری پر گئے۔ میاں جی بیکری سے بریڈ لینے کو اتر گئے۔ میں گاڑی میں ہی بیٹھی تھی میری گود میں اس وقت ساتھ آٹھ ماہ کا بیٹا تھا۔ بظاہر ایک خوشگوار صبح تھی۔ وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اچانک پیچھے کچھ دور فاصلے پر تڑ تر تڑ کی آوازیں آئیں تومیں نے سوچا یہ بے وقت پٹاخے کون پھوڑ رہا ہے۔

پلٹ کر دیکھا تو لوگ بھاگ رہے تھے۔ میرے میاں بھی جلدی سے آکر گاڑی میں بیٹھے اورمین روڈ سے گاڑی جلدی سے ایک گلی میں لے گئے۔ کہنے لگے فائرنگ ہے۔ ہمارا بیٹا معصوم ہمیں خوفزدہ دیکھ ہونٹ نکال کر رونے لگا۔ میں نے اسے بھینچ کر سینے سے لگا کر تسلی دی۔ حالانکہ ان حالات میں ماں کی گود بھی محفوظ نہیں رہتی۔

خیر کچھ دیر بعد گھر جانے کے لیے نکلے تو معلوم ہو اکہ جس کو قتل کیا گیاہے وہ ہمارے گھر سے چار پانچ گھر چھوڑ کر رہنے والے پڑوسیوں کا بیٹا تھا۔ اس کا بڑا بھائی ایم کیو ایم میں تھا۔ اور اب اس کو چھوڑنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس کو قتل کرنے کا حکم آگیا تھا۔ اس روز بے چارہ چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی گاڑی کو دھو کرجس وقت محلّے کا ایک شوقیہ چکر لگانے نکلا تھا۔ اس وقت اس کے بڑے بھائی کے دفتر جانے کا وقت ہوتا تھا۔ بے چارہ کیا جانتا تھ اکہ اس کے بڑے بھائی کو قتل کرنے کے لیے لوگ گھات میں تھے۔ ان کرائے کے قاتلوں نے یہ سمجھ کر کہ بڑا بھائی دفتر جانے کو نکلا ہے، اس کو قتل کردیا۔

وہ بچہ اتنی اچھی عادات و خصائل کا تھا کہ اس کا نام ہی ”اچھا“ مشہور تھا۔ آج بھی اس کی صورت ذہن میں نقش ہے۔ ہر وقت مسکراتا ہوا چہرہ تھا۔ ہرآنے جانے والے کو بہت ادب سے سلام کرتا تھا۔  بہت ہی دکھ ہو اکہ اس کو قتل کردیا گیا ہے۔ بمشکل انیس سال کا ہو گا۔ ہمیں گھر پہ چھوڑ کر میرے میاں جا کر دیکھ کر آئے تھے کہ کیسے اس کی گاڑی کھمبے سے ٹکرا گئی تھی اور وہ سیٹ پر اس طرح مردہ حالت میں تھا کہ نرخرہ ادھڑ چکا تھا۔ بہت عرصے تک محلّے میں ایک سراسیمگی چھائی رہی تھی۔ اس کا جنازہ اٹھتے وقت ماں  ور بہنیں پچھاڑیں کھا رہی تھیں اور وہ بھائی بت بنابیٹھا تھا جس کے دھوکے میں چھوٹا بھائی مارا گیا۔ ماں دوہری فکر مند تھی کہ بڑے کو بھی کب تک بچائے گی۔ ایسی لا قانونیت اور بے یقنی تھی کہ الامان الحفیظ۔

ایک بار رات آٹھ نو بجے کے قریب جب باہر سے لوٹتے وقت ہماری گاڑی گھر کی سڑک پر داخل ہوئی ا ور رفتار ذرا کم ہوئی تو ہماری ایک جانب سے اپنے دھیان میں جاتے ہوئے ایک شخص نے نیفے سے ایک چھوٹی سی ٹیٹی ماؤز ( شاید یہی نام ہوتاتھا) نکال کر اس کو دیکھا اور واپس اسی میں اُڑس لی۔ اور تیزی سے چلا گیا۔ اللہ جانے کہاں واردات کرنے جا رہا تھا۔ اس کے ارادے کیا تھے۔ لیکن اس کے چلے جانے پہ ہماری جان میں جان آئی۔ ورنہ ان چند لمحوں میں ہمارے کلیجے منہ میں آ گئے تھے۔ چاروں بچے اس وقت ہمارے ساتھ تھے ہمیں گن پوائنٹ پر گھر میں لے جا کر سارا گھر بھی لُوٹ سکتا تھا۔ سوکھے سڑے پتلے دبلے بانچھیں نکلی ہوئی لڑکے اسلحے کے زور پر ہلاکو خان بن جاتے تھے۔ اس لیے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔

پھر ایک بار ہمارے علاقے میں اچانک اندھا دھند فائرنگ ہو نے لگی جو اتنی نزدیک تھی کہ ہم سب کو بچوں سمیت زمین پر لیٹنا پڑا کہ کھڑکی سے کوئی گولی نہ آلگے۔ ہمارے گھر کی دیوار پر بھی گولی لگی تھی۔

ہمارے پڑوسی کے دو بیٹو ں کوان کی فوٹوگرافی دکان پر گولیاں ماردی گئیں۔ جس میں سے ایک موقع پر ہلاک اور دوسرا شدید زخمی ہوا تھا۔ اس کے غم میں اس کی ایک بہن ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ایک ڈیڑھ ماہ میں فوت ہو گئی تھی۔

ہمارے محلے سے کچھ دور پنجاب سے آئے کافی سارے مزدور ایک گھر کرائے پر لے کر رہتے تھے۔ رات کے وقت جب وہ سب تھکے ہارے سونے والے تھے کہ کچھ دہشت گردوں نے نہ جانے کس کے حکم پر ان سب کو زمین پر لٹا کر گولیوں سے بھون دیا۔ ان کا خون گلی تک بہہ کر آیا تھا۔ جس وقت یہ واردات ہونے لگی تھی۔ بے چارہ چوکیداربھی ادھر آنکلا۔ اس بے چارے نے دروازہ کھلا دیکھ کر گھر میں جھانک کر دیکھ لیا۔ بس پھر، اس کو بھی سائیکل سے اتار کر اس کے گلے سے سیٹی لے کراسی کی سائیکل کے ہینڈل پر لٹکا دی اورا سے بھی ان کے ساتھ ہی لٹا کر ماردیا گیا۔ انسانوں کو تو گاجر مولی سمجھ لیا گیا تھا۔

ہماری پڑوسن کی بچیاں وین میں اہلِ تشیع سہلیوں کے ساتھ اسکول آیا جایا کرتی تھیں۔ اس اہلِ تشیع خاندان پر جو قیامت توڑی گئی بیان سے باہر ہے۔ ہوا یوں کہ چھوٹے بھائی نے آئیس کریم کھانی تھی تو بہنوں نے اس کو آئیس کریم لینے جانے دیا۔ باقی بہن بھائی اور والدہ گھر پر تھے، جب دروازہ بجا تو دروازہ کھولنے پر ان کے بھائی کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی گھر میں داخل ہوگئے۔ اور ان سب کو یرغمال بنالیا۔ مردوں کو ایک طرف کردیا۔ جبکہ خواتین کو ایک کمرے میں بند کردیا۔ وہ منتیں کرتی رہیں کہ ہمارے مردوں کو کچھ مت کہنا۔ ان کو کہا گیا چپ چاپ کمرے میں بند ہو جائیں گی توہم کچھ نہیں کہیں گے۔ اور بعد میں تمام مردوں کو نہ صرف گولوں سے بھون دیا گیا بلکہ ان کا مُثلہ کیا گیا۔

یہ واقعات اوپر تلے ہوئے تھے۔ گو میں نے جا کر نہیں دیکھا تھا لیکن ان کی تفصیل ہی سن کر میرا بی پی، 72 / 40 ہو گیا۔ قریب تھا کہ میں مر جاتی۔ ڈاکٹر کے گئے اس نے تو داخل کر کے ڈرپ لگوانے کو کہا۔ میں کیسے وہاں سارادن رہتی میرا گود کا بچہ کسی کے پاس نہیں رہتا تھا۔ کچھ روز سے میرا کھانا پینا چھٹا ہو اتھا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کم از کم ارجنٹلی کچھ کھائیں پیئیں۔ فوراً گرما گرم چکن کارن سوپ کچھ دوسری طاقت کی چیزیں لیں۔ پھر زبردستی کچھ کھانا کھایا تو طبیعت بحال ہوئی۔ میاں جی سخت خفا تھے کہ کھانا پینا کیوں چھوڑ دیا تھا میں نے۔

میرے بھائی کا چھوٹا بیٹا ہمارے گھر آیا ہو اتھا۔ میں کچن میں تھی کہ اچانک مجھے شک ہو اکوئی باہر گیا ہے۔ دیکھا تو دروازہ تو بند تھا مگر کُنڈی کھلی تھی۔ میں نے جلدی سے کھول کر دیکھ لیا۔ ہمارے گھر سے گلی کے آخری کونے پر ایک نیا خاندان آیا تھا۔ لوگ ان کو ہری پگڑی والے کہتے تھے۔ وہ صاحب میرے تین سالہ بھتیجے کو انگلے سے لگائے اپنے گھر میں داخل ہونے ہی والے تھے، میں جلد ی سے چیل کی طرح اڑان بھر کر اس کے سر پر پہنچ گئی۔

کہاں لے جارہے ہیں آ پ اس کو؟ وہ مجھے دیکھ کر سٹپٹا سے گئے اور پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے۔ بچے کو گھر میں طوطے دکھانے لے جا رہا تھا۔ میں نے اس سے کوئی سوال جواب نہیں کیا اور نہ کوئی دوسری بات کی۔ اپنے بھتیجے کا ہاتھ پکڑا اور گھر آگئی۔ اس کو شک نہیں ہونے دیا کہ مجھے اس پر کتنا غصہ آیا تھا۔ کیا ہو سکتا تھا یہ سوچ کر آج بھی جان نکل جاتی ہے۔ ہمارا بھتیجہ ہمارے لیے ایک کہانی بن جاتا۔ وہ مولانا کوئی بچہ نہیں تھے۔ پچیس تیس سال کا سن تھا۔ اتنی عقل تو ہونی چاہیے تھی کہ کسی کے بچے کو بنا پوچھے اپنے گھر نہیں لے جاتے۔

ہمارے تینوں بڑے بیٹے ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ ایک روز جب ہمارا بڑا بیٹا اسکول سے آیا تو کہنے لگا امی جان ایک بچے نے ہمیں احمدیہ مرکز سے جمعہ پڑھ کر نکلتے دیکھ لیاتھا پوری کلاس میں اس نے پھیلا دیا ہے کہ یہ قادیانی کافر ہیں۔ ان کو دوست نہ بناؤ بات نہ کرو۔ اس سے قبل ہمارے بچے اسکول میں بنی نمازکی جگہ پر ظہر کی نما زپڑھ لیا کرتے تھے۔ آیت کریمہ کے ورد میں شامل ہوجاتے تھے۔ لیکن پھر ان کا داخلہ وہاں ممنوع کردیا گیا۔ میرا دل کسی نے مٹھّی میں جکڑ دیا۔

اس کے بعد میں نے تہیّہ کر لیا کہ اب یہاں نہیں رہنا۔ سو اللہ نے مد دکی ہم برونائی چلے گئے۔ جس روز ہماری فلائیٹ تھی مغرب کے وقت اذانیں ہو رہی تھیں جب ہماری گاڑی ائیر پورٹ کے لیے جا رہی تھی۔ وہ اداس اذانیں آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ وہ اداس شام ہماری زندگی کی اداس ترین شاموں میں سے ہے۔ لگتا تھا کہ روح بدن سے جدا ہو رہی ہے۔ ہمارے دل میں تھا کہ جیسے ہی ہمارا برونائی میں جاب کانکٹریکٹ مکمل ہو گا ہم کسی بھی دوسرے ملک چلے جائیں گے۔

وطن چھوڑنے کا یہ فیصلہ ہمیں بے جان کیے دے رہا تھا۔ یہ سوچ کہ اب یہاں رہنا نہیں ہو گا نہایت اذیت ناک تھا مگر بچوں کی حفاظت مقدم تھی۔ سو ہم کینیڈا آگئے۔ آج بھی قطب نما کی طرح پاکستان کی طرف رُخ رہتا ہے۔ اس کی خوشی اور بہتری میں خوشی اور اس کی مشکلات پر دکھ محسوس کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت مخلص اور بھولی ہے لیکن وہاں کے شدت پسند لوگ ان پر حاوی ہیں۔ پاکستان ان انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے جنہوں نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔ مہنگائی رشوت، ذخیرہ اندوزی، لسانی علاقائی اور مذہبی منافرت پھیلانا ان کا پیشہ ہے۔ پاکستان ہمیں بے حد عزیز ہے لیکن افسوس! اس کے کچھ ظالم لوگ ہمیں وہاں امن سے رہنے نہیں دیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).